Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہاراجہ رنجیت سنگھ واقعی لاہور کے مسلمانوں کے نجات دہندہ تھے؟

رنجیت سنگھ 13 نومبر 1780 کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے (فوٹو: گیٹی امیجز)
یہ 12 جولائی کا دن تھا اور سال تھا 1799، شہرِ بے مثل لاہور میں گرمی سے ستائے عوام اپنے ’مسیحا‘ کے منتظر تھے۔ اس وقت 18 برس کا نوجوان رنجیت سنگھ ایک آندھی کی طرح شہر میں داخل ہوا۔ اس نے شہریوں سے وعدہ کیا کہ ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔
اس نوجوان نے اپنا یہ وعدہ کچھ یوں پورا کیا کہ وہ اگلے روز دو مساجد کے دورے پر گیا اور اس نے اپنے دشمن کو خاندان سمیت شہر چھوڑنے کی اجازت دے دی۔
آگے بڑھنے سے قبل کچھ ذکر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ابتدائی زندگی کا ہو جائے تاکہ یہ سمجھنے میں آسانی رہے کہ جولائی 1799 میں لاہور کی فتح کوئی معمولی کارنامہ نہ تھا بلکہ یہ تو پہلا قدم تھا جس کے بعد رنجیت سنگھ مہاراجہ بنے اور صرف 22 برس کی عمر میں امرتسر فتح کرنے کے علاوہ پنجاب پر اپنا اقتدار مضموط کرنے میں  کامیاب ہو چکے تھے۔
رنجیت سنگھ 13 نومبر 1780 کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد مہان سنگھ سکرچکیہ مثل کے سربراہ تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پنجاب 12 مثلوں یا یوں کہہ لیجیے کہ خودمختار ریاستوں میں منقسم تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ رنجیت سنگھ کا نام گھر میں سے کسی نے بدھ سنگھ تجویز کیا مگر اُن کے والد، جو محاذ پر گئے ہوئے تھے، واپس لوٹے تو انہوں نے یہ نام تبدیل کر کے رنجیت (فاتح) رکھا۔
1780  کی دہائی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک ملازم، جارج فوسٹر کو پنجاب کے لوگوں پر رپورٹ لکھنے کا کام سونپا گیا۔ اُنہوں نے طویل غور و فکر اور مشاہدے کے بعد لکھا:
’اگر مستقبل میں کوئی ایسا سبب پیدا ہو جو سکھوں کو اپنی سلطنت اور مذہب کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے متحد کر دے تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کوئی باصلاحیت اور کامیاب سردار اپنے ساتھیوں کی طاقت کو استعمال میں لاتے ہوئے ان کی مشترکہ ریاست سے اپنی بادشاہت کا علم بلند کرے گا۔‘
جارج فوسٹر نے یہ پیش گوئی اس وقت کی تھی جب رنجیت سنگھ صرف دو سال کے تھے۔ یہ پیش گوئی اگلے چند برسوں میں حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔
رنجیت سنگھ پانچ سال کے تھے تو چیچک کی بیماری کی وجہ سے ان کی ایک آنکھ کی بینائی چلی گئی۔ دس سال کے ہوئے تو والد کی وفات ہو گئی۔ بارہ سال کی عمر میں ایک قاتلانہ حملے میں بال بال بچے۔ ان مشکلات کے باوجود وہ فوجی تربیت حاصل کرتے رہے جس کا اندازہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسر اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کے اولین سوانح نگاروں میں سے ایک کرنل جیمز سکنر کے ان الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے:

مہاراجہ رنجیت سنگھ نے وزیر خان کی حویلی میں پڑاؤ ڈالا تھا، یہ وہ مقام ہے جہاں اب پنجاب پبلک لائبریری قائم ہے (فوٹو: جی پی پی ایل)

’انہیں روزانہ فوج کی نگرانی، عمدہ گھوڑوں اور بہادر سپاہیوں کی تلاش کے علاوہ بندوق چلانے اور گھڑ سواری کی مشقوں میں بے حد لطف آتا تھا۔ وہ نیزے، تلواریں، بندوقیں چلانے اور فوج کو مسلسل مشق کرانے میں مکمل طور پر محو رہا کرتے۔‘
وہ آگے جا کر لکھتے ہیں کہ ’وہ ایسے بہادر ہیں کہ اکثر خود حملہ آور دستوں کی قیادت کرتے ہیں، اور دشمن کے علاقے میں داخل ہونے والے پہلے شخص ہوتے ہیں۔ وہ تقدیر پر یقین رکھنے والے انسان ہیں، جو ان کی فطری بہادری میں مزید اضافے کی وجہ بنتا ہے۔‘
’وہ کہتے ہیں کہ انسان کو تقدیر کا سامنا کرنا چاہیے کیوں کہ جو کچھ اس کی قسمت میں لکھا ہے، وہ بہر صورت ہو کر رہے گا کیوں کہ یہ پہلے سے مقرر کیا جا چکا ہے۔‘
اب آتے ہیں لاہور کی اس تاریخی فتح کی جانب جس کے باعث رنجیت سنگھ کے لیے پنجاب کا مہاراجہ بننا ممکن ہو سکا۔ مستنصر حسین تارڑ اپنی کتاب ’لاہور دیوانگی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’رنجیت سنگھ نے شہرِ لاہور بہ زور بازو فتح نہیں کیا تھا بلکہ اس شہر کے مکینوں نے انہیں مدعو کیا تھا جو مقامی سکھا شاہی کی لوٹ مار اور قتل و غارت سے عاجز آ چکے تھے اور اُن تک اس سکھ سردار کی دانائی اور قانون کے احترام کے قصے پہنچ چکے تھے۔ ان میں ہندوؤں، سکھوں کے علاوہ مسلمان زعما بھی شامل تھے۔ انہوں نے  شہر کے دروازے کھول دیے۔‘
یہ تو ہم جانتے ہیں کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے وزیر خان کی حویلی میں پڑاؤ ڈالا تھا، یہ وہ مقام ہے جہاں اب پنجاب پبلک لائبریری قائم ہے اور وہ لوہاری گیٹ سے فصیل بند شہر میں ایک فاتح کے طور پر داخل ہوئے مگر اس سے زیادہ اور تفصیل سے کبھی تحقیق نہیں کی گئی کہ وہ کیا حالات تھے جن کے باعث یہ فیصلہ کن اقدام کیا گیا کیوںکہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے لاہور ہر حملہ کرنے سے قبل بھنگی مثل کے لہنا سنگھ، گجر سنگھ اور کنہیا مسل کے سوبھا سنگھ شہرِ پرکمال پر حکمران تھے۔

لاہور انتظامی طور پر تین حصوں میں تقسیم تھا۔ لہنا سنگھ کی عملداری قلعے اور اندرون لاہور پر تھی (فوٹو: اے ایف پی)

اس وقت کا لاہور انتظامی طور پر تین حصوں میں تقسیم تھا۔ لہنا سنگھ کی عملداری قلعے اور اندرون لاہور پر تھی۔ گجر سنگھ بھنگی شہر کے مشرقی حصے سے لے کر شالامار باغ تک حکمران تھے تو مشرقی حصے سے ٹھوکر نیاز بیگ تک سوبھا سنگھ حکمران تھے۔
گجر سنگھ نے اپنا قلعہ بھی تعمیر کیا تھا اور اسی کے نام سے لاہور کا علاقہ قلعہ گجر سنگھ موسوم ہے۔ سوبھا سنگھ نے اپنا قلعہ زیب النسا باغ میں چوبرجی کے قریب بنایا تھا جس کی وجہ سے یہ علاقہ اب نواں کوٹ کہلاتا ہے۔
18 برس کی عمر میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے جب لاہور فتح کیا تو یہ تینوں سکھ سردار وفات پا چکے تھے اور ان کی اگلی نسل اقتدار میں آ چکی تھی جن  کی کمزور حکمرانی کے باعث لاہور کے شہری تنگ آ چکے تھے۔
کنہیا لال کی کتاب ’تاریخ پنجاب‘ سے بھی اس وقت کے حالات کی تصدیق ہوتی ہے جس میں انہوں نے لاہور کے ان رؤسا کے نام بھی لکھے ہیں جنہوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کو لاہور پر حملہ کرنے کی دعوت دی جن میں حاکم رائے، محمد عاشق، محمد باقر، محمد طاہر اور مفتی محمد مکرم شامل تھے اور یہ سب مسلمان تھے۔
لاہور کے ان رؤسا نے اس خط میں لاہور شہر کے رعایا کی ان مشکلات کا ذکر کیا تھا جن کا سامنا ان کو ان تین حکمرانوں کی وجہ سے کرنا پڑ رہا تھا۔ اس خط کے بعد ہی رنجیت سنگھ نے لاہور کی جانب پیش قدمی کی تھی۔
مجید شیخ ڈان میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’وہ تمام افراد جنہوں نے رنجیت سنگھ کو قلعے میں داخل ہونے میں مدد دی، اُنہوں نے ان سب کو انعامات سے نوازا جن میں مہر موقم کو فصیل بند شہر (لاہور) کا پہلا منتظم مقرر کیا گیا۔ اُسے ’حرف بابا‘ کا خطاب دیا گیا، جس کا مطلب پیغام رساں ہے۔‘

موراں مائی کے نام سے مہاراجہ نے موراں شاہی سکہ بھی جاری کیا تھا (فوٹو: پراتیپ شیدیو)

اس کہانی میں ایک اہم کردار مائی موراں کا بھی ہے جن کے بارے میں بہت سی کہانیاں مشہور ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ وہ کشمیر سے تھیں اور کچھ کہتے ہیں کہ اُن کا تعلق لاہور کے بازارِ حسن سے تھا۔ یہ وہ موراں مائی ہی ہیں جن کے نام سے مہاراجہ نے موراں شاہی سکہ بھی جاری کیا تھا جو لاہور عجائب گھر میں نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور فتح کرنے کے بعد رنجیت سنگھ لاہور کے شاہی قلعے میں قیام پذیر نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے مائی موراں کی حویلی میں قیام کیا جو پاپڑ منڈی میں واقع تھی۔ وہ ہر صبح اُس گھوڑے پر سوار ہو کر قلعے جایا کرتے جس پر سواری کرتے ہوئے وہ پہلی بار لاہور میں ایک فاتح کے طور پر داخل ہوئے تھے۔
مہر مقم کا مہاراجا کے دربار میں بہت زیادہ رتبہ تھا اور وہ انہیں اپنے باپ کا درجہ دیا کرتے تھے۔ مہر مقم کو شاہی دربار ایک طوائف کے گھر پر لگنا ناگوار گزرا تو انہوں نے مہاراجہ کو سمجھانے کی کوشش کی جس کے باعث مہاراجہ نے ان سے خطاب چھیننے کے علاوہ ان پر جرمانہ بھی عائد کیا جس سے مائی موراں کے  شاہی امور پر اثرو رسوخ کا اندازہ ہوتا ہے۔
مجید شیخ مگر اس سے مختلف کہانی بیان کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’جب یہ انکشاف ہوا کہ وہ (مہر مقم) رنجیت سنگھ کی مخالف سکھ مثلوں کے سرداروں سے رابطے میں ہیں تو ان سے خطاب (حرف بابا) واپس لے لیا  گیا اور 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا، اور عدم ادائیگی پر قید کر لیا گیا۔ ازاں بعد جب جرمانے کی ادائیگی کا انتظام ہوا تو اُنہیں رہا کر دیا گیا۔ ان کی گرفتاری پر مہر مقم کے دیگر دوست اچانک شہر سے غائب ہو گئے۔‘
اس میں بہرحال کوئی دو رائے نہیں کہ مائی موراں کا مہاراجہ کے فیصلوں پر بہت زیادہ اثر تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لاہور دربار کو ناقابلِ تسخیر بنانے میں مائی موراں کا اہم کردار تھا جس کا ذکر مجید شیخ نے ان الفاظ میں کیا ہے:
’لاہور دربار کو یورپی طرز پر جدید بنانے، مضبوط اور بلند فصلیوں کی ازسرنو تعمیر اور شہر کے اردگرد خندقیں کھودنے میں مائی موراں کی مسلسل ترغیب کا بڑا عمل دخل تھا۔‘

مائی موراں مسلمان تھیں اور انہوں نے اپنی حویلی کے سامنے پاپڑ منڈی میں ہی مسجد بھی تعمیر کی تھی (فوٹو: لاہور ورثہ)

مائی موراں مسلمان تھیں اور انہوں نے اپنی حویلی کے سامنے پاپڑ منڈی میں ہی مسجد بھی تعمیر کی تھی جو مائی موراں مسجد کے نام سے جانی جاتی ہے اور شہرِ لاہور کا ایک اہم تاریخی ورثہ ہے۔
لاہور کی فتح کے بعد اگرچہ افغان بادشاہ زمان شاہ نے رنجیت سنگھ کو لاہور کا بادشاہ تسلیم کر لیا تھا مگر رنجیت سنگھ نے سال 1801 میں رسمی طور پر مہاراجہ کا لقب اختیار کیا۔
یہ فتح لاہور کی تاریخ کا ایک اہم باب تو ہے ہی بلکہ اس فتح نے سکھوں کی بارہ مثلوں کو ختم کرنے میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کیا جس کے بعد مہاراجہ نے ایسی فوج بنائی جو بلاشبہ برصغیر کی بہترین فوج تھی۔ اس فتح کی وجہ سے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا سیکولر تشخص بھی نمایاں ہوا جنہوں نے اپنی فتح کے بعد دو مساجد کا دورہ کیا جس کا ذکر مصنف محمد شیخ نے اپنی کتاب ’پانچ دریاؤں کا شہنشاہ‘ میں کیا ہے۔
اس حقیقت میں بہرحال کوئی شبہہ نہیں کہ رنجیت سنگھ کو لاہور کے مسلمان رؤسا نے دعوت دی تھی جو سکھ مثلوں کے ظلم وجبر اور نااہل قیادت سے تنگ آ چکے تھے جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کوئی بھی ریاست ایسے حالات میں اپنی بقا قائم نہیں رکھ سکتی جب اس ملک کی رعایا اپنے حکمرانوں سے ناخوش ہو۔

 

شیئر: