Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں ٹیکنالوجی کی مدد سے تعلیم عام ہو سکتی؟

ٹینکالوجی کے ذریعے مزدور بچوں کو بھی تعلیم دی جا سکتی ہے۔ فوٹو:ٹیک جوس
پاکستان میں کلاس روم کا ذکر کیا جائے تو ایک ایسا تصور ذہن میں ابھرتا ہے جس میں بچے زمین یا کرسیوں پر بیٹھے ہیں اور استاد کتابوں سے انہیں بغیر سیاق کے سبق یاد کروا رہے ہیں۔ عام زبان میں اسے رٹا لگانا بھی کہا جاتا ہے۔ 
لیکن آج کل کے دور کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اگر مثالی کلاس روم کی بات کی جائے تو تصور آتا ہے کہ کھیل، یعنی پزل اور کوئز جیسے حربوں کے ذریعے بچوں کو سبق یاد کرایا جائے جس سے وہ اصل معنوں میں تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ 
آج کل کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں ایسا کرنا مشکل نہیں لیکن پاکستان ایسا ملک ہے جہاں سکولوں میں آئی پیڈ اور کمپیوٹر کا تصور خواب ہی لگتا ہے۔
بہرحال اس ملک میں ایسے لوگ اور سہولیات موجود ہیں جس کے ذریعے ایسے منصوبوں کو حقیقت کی شکل دی جا سکتی ہے۔
ایسے تعلیمی نظام کو انگریزی میں ’ڈیجیٹل ایجوکیشن سسٹم‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ 

حکومت کے لیے ہر کلاس روم میں ٹیبلٹ یا کمپیوٹر دینا مشکل ہے۔ فوٹو: ٹویٹر

اس بارے میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والے تین روزہ ادبی میلے میں گفتگو ہوئی جہاں تعلیم اور ٹیکنالوجی کے ماہرین نے اپنے تجربے شرکا کو بتائے۔ 
ماہر تعلیم عمر سیف کا کہنا تھا کہ تعلیمی نظام میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے ان بچوں میں تعلیم عام کی جاسکتی ہے جو سکول نہیں جاتے یا جنہیں مالی مجبوریوں کے تحت تعلیم چھوڑ کر کمائی کرنا پڑتی ہے۔ 
اس کی ایک مثال دیتے ہوئے عمر سیف نے کہا کہ پاکستان میں متعدد ایسے بچے ہیں جنہیں گھر کے مالی حالات کی وجہ سے سکول کی تعلیم تک مکمل کرنے کا موقعہ نہیں ملتا۔ مثلاً اگر کوئی بچہ یا بچی چھ سال کی عمر میں سکول چھوڑ دیتا ہے اور پھر 14 سال کی عمر میں سکول واپس جانا چاہے تو بیچ میں پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ اگر کلاسوں میں آئی پیڈ یا کمپیوٹر موجود ہوگا تو کسی بچے یا بچی کو جہاں سیکھنے کے عمل میں رکاوٹ محسوس ہو رہی ہوگی اس کو کلاس میں موجود استاد کمپیوٹر کی مدد سے حل کر سکتے ہیں۔
لیکن کیا ہر کلاس میں کمپیوٹر اور ٹیبلٹ دینا ایسی حکومت کے لیے مشکل نہیں ہوگا جو کلاسوں میں صحیح سے ٹیبل اور کرسیاں بھی نہیں رکھواتی؟

سیشن میں عمر سیف کے ہمراہ دیگر ماہر تعلیم بھی موجود تھے۔ فوٹو: ٹویٹر

اس سیشن میں تعلیم کے شعبے سے تعلق رکھنے والے دیگر ماہرین بھی موجود تھے جن کا ماننا تھا کہ ایسے اقدامات پر خرچہ آسکتا ہے اور آتا ہے لیکن پنجاب حکومت نے ایسے کامیاب تجربے کیے ہیں جو پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے ذریعے ممکن بنائے گئے۔
ایک نجی سکول سسٹم کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر قاسم قصوری کا کہنا تھا کہ ایسے اقدامات میں اساتذہ کی تربیت میں اور سکولوں میں ٹیبلٹ اور کمپیوٹر فراہم کرنے میں خرچہ آتا ہے۔ لیکن یہ ایک طرح کی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ آہستہ آہستہ اس طرح کے اقدامات خرچے کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
اس کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر اساتذہ کو ویڈیو کانفرنس کی سہولت موجود ہو تو وہ اس کے ذریعے ایسی جگہوں تک تعلیم عام کر سکتے ہیں جہاں کوئی استاد موجود نہ ہو۔ 
تعلیم اور تفریح کے مرکب کی اہمیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمر سیف نے شرکا کو عالمی اقتصادی فورم کے ایک تجربے کے بارے میں بتایا، جس کے تحت اس ادارے نے انڈیا میں سکولوں میں بچوں کو فلموں کے ذریعے لکھنا اور پڑھنا سکھایا۔ 
انہوں نے بتایا کہ ایک تجربے کے تحت عالمی اقتصادی فورم نے کارٹونوں اور فلموں میں سب ٹائٹلز لگائے اور متعدد بچوں کو لکھنا اور پڑھنا سکھایا۔ 

شیئر: