Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’لڑکوں کے کھیل‘ کی چیمپیئن

کراچی سے تعلق رکھنے والی ایتھلیٹ رابعہ شہزاد نے 13 سال کی عمر سے کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا اور تیراکی، بیڈ منٹن اور اتھلیٹکس میں صوبائی سطح تک نمائندگی کی، مگر ان کھیلوں سے انہیں زیادہ دلچسپی نہ ہوئی۔
رابعہ کو ایسے کھیل پسند تھے جنہیں عموماً ’لڑکوں کے کھیل‘ گردانا جاتا ہے، سو انہوں نے ویٹ لفٹنگ شروع کی اور سندھ کی پہلی خاتون ویٹ لفٹر بننے سے شروع ہوئی کہانی اب عالمی مقابلوں میں گولڈ میڈل تک جا پہنچی ہے، اب وہ 2024 کے اولمپکس میں شرکت کے لیے کوشاں ہیں۔
حال ہی میں برطانیہ میں ویٹ لفٹنگ کے مقابلوں میں طلائی تمغہ جیتنے والی ربیعہ تین بہنوں میں سب سی چھوٹی ہیں، ان سے پہلے ان کی بڑی بہنیں بھی کھیلوں میں اپنا نام منوا چکی ہیں۔ ماہور شہزاد پاکستان کی بہترین بیڈمنٹن کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں اور ایشیئن گیمز اور کامن ویلتھ میں ملک کی نمائندگی بھی کرچکی ہیں۔
رابعہ شہزاد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے گھر میں کھیلوں کو خاصی اہمیت دی جاتی ہے، ان کے والد کشتی رانی کے کھلاڑی ہیں اور انہوں نے شروع سے ہی اپنی بیٹیوں کی کھیل میں حوصلہ افزائی کی۔

ربیعہ شہزاد اپنے بہنوں کو دیکھ کے کھیلوں کے میدان میں آئیں۔ فوٹو: ربیعہ شہزاد

ربیعہ شہزاد نے بتایا کے شروع شروع میں تو وہ بس باقی دونوں بہنوں کی سکورنگ کرتی رہتی تھیں اور کھیل کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیتی تھیں، لیکن جب بڑی بہنوں کو پذیرائی ملی اور ہر جگہ ان کا نام ہوا تو انہیں لگا کہ وہ اس سب میں پیچھے نہ رہ جائیں۔
رابعہ نے شروع میں تیراکی کی، بیڈمنٹن کھیلا اور ایتھلیٹکس میں تو سندھ کی طرف سے نیشنل گیمز میں حصہ بھی لیا اور سونے کا تمغہ بھی جیتا، مگر جلد ہی ان کی دلچسپی اس سب میں ختم ہونے لگی۔
رابعہ کے بقول انہوں نے باضابطہ طور پر سات مختلف کھیل کھیلے مگر ان سب سے یکے بعد دیگرے دلچسپی ختم ہوتی گئی، ان کا دل ’پاور سپورٹس‘ میں لگتا تھا جس میں انسان اپنی طاقت دکھا سکے۔ 
وہ کہتی ہیں کہ ’پاور سپورٹس کو عموماً لڑکوں سے منسوب کیا جاتا ہے، پر مجھے تو ایسا ہی کوئی کھیل کھیلنا تھا جس میں طاقت کا استعمال ہو۔
17 سال کی عمر میں رابعہ نے کشتی کھیلنا شروع کی، اس کے بعد فری سٹائل پاور لفٹنگ میں زور آزمایا مگر جلد ہی انہیں اندازہ ہوگیا کہ اگر نام کمانا ہے تو ایسا کھیل کھیلنا ہوگا جو اولمپکس میں شامل ہوتا ہو۔ سو ایسا کھیل جس میں طاقت کا استعمال ہو اور وہ اولمپکس میں بھی شامل ہو، تو پھر ربیعہ نے ویٹ لفٹنگ پر باقاعدہ توجہ دینا شروع کی اور اپنی ٹریننگ کو اس حوالے سے مربوط کیا۔

ربیعہ شہزاد کے مطابق ان کے والد نے شروع سے ہی اپنی بیٹیوں کی کھیل میں حوصلہ افزائی کی۔ فوٹو: ربیعہ شہزاد

حیران کن طور پر ربیعہ نے ابھی تک کسی ٹرینر سے باضابطہ طور پر تربیت حاصل نہیں کی، وہ انٹرنیٹ پر معلومات جمع کر کے اور یو ٹیوب پر ٹریننگ ٹٹوریل دیکھ کر تربیت کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’میں سندھ کی پہلی خاتون ویٹ لفٹر ہوں، یہاں ٹریننگ کا کوئی خاص انتظام نہیں۔ پنجاب میں پھر بھی صورتحال نسبتاً بہتر ہے۔
رابعہ کا کہنا ہے کہ اب اس سطح پر آکر انہیں ٹرینر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، فی الحال تو انہوں نے امریکہ کے کچھ ویٹ لفٹرز سے آن لائن ٹریننگ ٹپس حاصل کی ہیں لیکن وہ کسی قابل کوچ کی تلاش میں ہیں۔
کھیل کے ساتھ ساتھ ربیعہ بی بی اے کی تعلیم بھی حاصل کر رہی ہیں، ان کا ارادہ ہے کے اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ جائیں اور وہاں مستند ٹرینر سے ویٹ لفٹنگ کی تربیت بھی حاصل کریں۔

ربعیہ نے کہا کہ وہ 2024 کے اولمپکس میں شرکت کے لیے تیاری کریں گی۔ فوٹو: ربیعہ شہزاد

ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی کھلاڑی کا خواب ہوتا ہے کہ وہ اولمپکس میں حصہ لے، اس کے لیے بہت زیادہ تربیت درکار ہوگی جبکہ انہیں ویٹ لفٹنگ شروع کیے ابھی صرف ڈھائی سال ہوئے ہیں۔ ربعیہ نے کہا کہ وہ 2024 کے اولمپکس میں شرکت کے لیے تیاری کریں گی۔
کھیل کے مقابلوں میں شرکت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی جیب سے خرچ کر کے ان مقابلوں میں شرکت کرنے جاتی ہیں، اور پاکستان سپورٹس بورڈ کی طرف سے کوئی مدد یا رہنمائی نہیں کی جاتی۔ انہوں نے یہ شکوہ بھی کیا کہ کھیلوں میں تمغے جیتنے کے باوجود انہیں ابھی تک کسی نے سپانسر نہیں کیا، یہ ایک مہنگا کھیل ہے مگر بہتر کارکردگی کے باوجود کوئی پذیرائی نہیں۔
رابعہ شہزاد نے بتایا ’مجھے اگر کوئی لڑکی آکر کہتی ہے کہ وہ بھی ویٹ لفٹنگ کرنا چاہتی ہے تو اسے منع کر دیتی ہوں اور کہتی ہوں کہ کوئی اور کھیل چن لو پر ویٹ لفٹنگ ایک مہنگا کھیل ہے اور حکومت یا اداروں کی جانب سے کوئی سپورٹ نہیں ملنے والی۔
رابعہ نے بتایا کے گھروالوں اور دوستوں نے انہیں بہت سراہا اور ہمیشہ ان کی ہمت بڑھائی مگر جب کبھی کسی مقابلہ جیتنے کی خبر چھپتی ہے تو سوشل میڈیا پر کچھ  لوگوں کے تبصرے سن کر انہیں افسوس ہوتا ہے۔ ’وہ لوگ شاید کم علم ہیں اس لیے ایسی باتیں کرتے ہیں۔

شیئر:

متعلقہ خبریں