Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’رواں سال بھی گیس کا بحران رہے گا‘

پاکستان میں ہرسال کی طرح رواں سال بھی سردیوں میں گیس کے شدید بحران کے امکانات ہیں اور حکام کے مطابق اس کے اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں تاہم کئی علاقوں میں اس کی شدت محسوس کی جائے گی۔
سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین سید دلاورعباس نے اس حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ گیس کے بحران کو قابو کرنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن اس کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔
ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ شدید سردی کے موسم میں گیس پائپ لائنوں میں جم جاتی ہے جس کی سپلائی بہتر بنانے کے لیے کیمیکلز اور کمپریسرز کا استعمال کیا جاتا ہے، لیکن پاکستان کے پاس گیس کمپریسرز کم ہیں جس کی وجہ سے اس مسئلے کا مکمل حل فوری طور پر ممکن نہیں ہے۔
’ایک خاص حد کے اندر تو ہم سردی کے موسم میں اپنے سسٹم کو اتنا موثر بنا لیتے ہیں کہ کم سے کم (کمی) آئے، لیکن شدید موسم آجائے تو ترقی یافتہ دنیا میں بھی جب برف پڑتی ہے تو ان کا سسٹم بھی متاثر ضرور ہوتا ہے، کیونکہ بہت مہنگا کھیل ہے، اس لیے ہمارے جیسے، پاکستان جیسے ملک جن کے حالات اجازت نہیں دیتے یا آپ افورڈ نہیں کر سکتے تو ہم ایک قسم کا چانس ضرور لیتے ہیں، کہ ہم پائپ لائنز کی زیادہ سے زیادہ حفاظت کریں۔‘

پاکستان کے زیادہ تر علاقوں میں ایل پی جی یا سلنڈر میں بھری گئی گیس استعمال کی جاتی ہے۔ فوٹو: روئٹرز

سید دلاور عباس کے مطابق ’سخت سردی کے موسم میں ہمارے سسٹم میں آپ مکمل طور پر حفاظت نہیں کرسکتے، یہ ایک مہنگا طریقہ ہے۔ اس لیے ایس این جی پی ایل کچھ اقدامات ضرور کرتی ہے، لیکن سارے سسٹم کو وہ کور نہیں مل سکتا، ہمیں کچھ رسکس لینے پڑتے ہیں سپلائی کے ان ایریاز میں جہاں شدید موسم پائپ لائنز کو نشانہ بناتا ہے۔‘
ایس این جی پی ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں گیس بحران کے مکمل خاتمے کے لیے کم از کم دو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہے جس کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔
’یہ تقریبا دو ملین ڈالرز کی بات ہے جو پاکستان بیک وقت خرچ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ تو اس لیے جتنا ایس این جی پی ایل خود برداشت کر سکتی ہے اتنی ہم خود سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ جو اقدامات ہم لیتے ہیں اس میں ہم پائپ لائن کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بناتے ہیں، لیکن پھر بھی بہت سے علاقوں میں شدید موسم میں ہماری پائپ لائن ایکسپوز ہوتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہر سال کچھ علاقے کو کور کر لیا جائے گا اور تین سے چار برس میں بہتری کا امکان ہے۔

ماضی میں پاکستان میں گیس پائپ لائنز پر تخریب کاروں کی جانب سے حملے بھی ہوتے رہے۔ فوٹو: اے ایف پی

’میرے جو ٹارگٹیڈ ہیں، وہ تین سے چار سال کے اندر ہم زیادہ سے زیادہ کوریج کر لیں، خاص کر شدید موسم کا نشانہ بننے والے علاقے کو کور کر لیں۔‘
انہوں نے کہا کہ رواں سال اس بحران کو کم سے کم کرنے کے لیے کوششیں ابھی سے شروع کر دی گئی ہیں۔
’اب اس شدت سے وہ بحران نہیں آنا چاہیے اور نہ ہوگا، کیونکہ میں نے انتظامیہ کو کافی اقدامات کرنے کے لیے کہا ہے، کوشش جاری ہے کہ سرد موسم کے اثرات کو پائپ لائنز پر کم سے کم کیا جائے۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: