Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نواز شریف کے نعروں میں بزدار کی انٹری

سنیچر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی ضمانت کی درخواست سے متعلق ایک متفرق درخواست دائر ہوئی۔ فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں طبی بنیادوں پر سابق وزیراعظم نواز شریف کی آٹھ ہفتے کے لیے ضمانت منظور کر لی ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے فیصلہ پڑھ کر سنایا اور 20، 20 لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا۔
عدالت نے کیس کی سماعت کا وقت دوپہر 1:30 بجے مقرر کیا تھا لیکن دن 11 بجے سے ہی کمرہ عدالت کے اندر اور باہر خاصا رش تھا۔ مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما احسن اقبال، خواجہ آصف، امیر مقام، سابق گورنرز مہتاب عباسی اور محمد زبیر سمیت متعدد رہنما اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ چکے تھے۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ نے کارکنان بی بڑی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ سب کو یہی امید تھی کہ آج ان کے قائد کو رہائی کا پروانہ مل جائے گا۔

’میاں تیرے جاں نثار‘ کے نعروں میں عثمان بزدار کی انٹری

اس مقدمے میں عدالت نے وزیراعلی پنجاب کو ذاتی حیثیت میں بھی طلب کر رکھا تھا اور وہ بھی لاہور سے اسلام آباد پہنچ چکے تھے۔
چونکہ عدالت کے احاطے میں ن لیگ کے کارکنان بڑی تعداد میں موجود تھے اس لیے سکیورٹی اداروں نے عدالت کے مرکزی دروازے سے لے کر کمرہ عدالت تک ہاتھوں کی زنجیر بنوا کر عثمان بزدار کے لیے راہداری بنوائی۔ 1 بج کر 20 منٹ پر وزیراعلی پنجاب عدالت پہنچے اور’میاں تیرے جاں نثار‘ کے نعروں کی گونج میں کمرہ عدالت میں داخل ہوئے۔

سکیورٹی اداروں نے عدالت کے مرکزی دروازے سے لے کر کمرہ عدالت تک ہاتھوں کی زنجیر بنوا کر عثمان بزدار کے لیے راہداری بنوائی (فوٹو:اردونیوز)

اب سماعت کا وقت آن پہنچا تھا،پانچ منٹ بعد دونوں جج صاحبان بھی کمرہ عدالت میں آگئے اور عدالتی کارروائی کا آغاز ہوگیا۔

وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار روسٹرم پر

حکومت پنجاب کے وکیل نے کہا وزیراعلی پنجاب کے اس عدالت میں پیش ہونے کے لیے آئینی اور قانونی پیچیدگیاں تھیں جس کے باوجود وہ عدلیہ کے احترام میں عدالت کے روبرو پیش ہوئے ہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم نے وزیراعلی پنجاب کو اس مقدمے میں صرف اس لیے بلایا ہے تاکہ جیلوں میں بیمار قیدیوں کے حوالے سے بھی دریافت کیا جا سکے۔ ان لوگوں کا کیا ہوگا جو عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکا سکتے؟
وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے عدالت کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بطوروزیراعلی میرا یہ ریکارڈ ہے کہ میں ایک سال میں 8 جیلوں کا دورہ کر چکا ہوں۔ حکومت پنجاب نے 600 ایسے قیدیوں کی رہائی ممکن بنائی جو صرف جرمانے نہ ادا کر سکنے کی وجہ سے جیل کاٹ رہے تھے۔

ڈاکٹر عدنان نے کہا ’بیس برس میں نواز شریف کی حالت کبھی اتنی تشویشناک نہیں دیکھی۔‘ فوٹو: پی ایم ایل (ن)

وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے کہا کہ میں خود ایک وکیل ہوں اور جیل ریفارمز کی صورت میں ایک مکمل پیکج کابینہ میں پیش کرنے جا رہے ہیں جو چند دنوں میں منظور کر لیا جائے گا۔
وزیراعلی پنجاب نے کہا کہ ہم نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو بہترین طبی سہولیات دی ہوئی ہیں، عبوری ضمانت منظور ہونے کے بعد بھی وہ سروسز ہسپتال میں موجود ہیں جو کہ اس حکومت کی جانب سے دی جانے والی سہولیات پر اعتماد کا اظہار ہے۔
جج صاحبان نے وزیراعلی پنجاب کو سننے کے بعد ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ’آپ جا سکتے ہیں۔‘

’شاید ہم میاں صاحب کو کھو دیں‘

سروسز ہسپتال کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ ڈاکٹر سلیم شہزاد نے عدالت کو سابق وزیراعظم کی صحت سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ نوازشریف کو متعدد بیماریاں لاحق ہیں۔ ان کے پلیٹ لیٹس کی تعداد 30 ہزار ہے، جب پلیٹ لیٹس کی تعداد 48 ہزار تک پہنچی تو انہیں ہلکا دل کا دورہ بھی پڑا تھا۔
عدالت نے حکومتی میڈیکل بورڈ کو سننے کے بعد نوازشریف کے ذاتی معالج اور میڈیکل بورڈ کے رکن ڈاکٹر عدنان کو روسٹرم پر بلایا اور ان کی رائے دریافت کی۔ ڈاکٹرعدنان نے عدالت کو بتایا کہ’ میں 20 سال سے نوازشریف کے معالج کے طور پر ساتھ ہوں لیکن میں نے کبھی ان کو ایسی تشویشناک حالت میں نہیں دیکھا۔ ’پہلی بار میں فکر مند ہوں کہ شاید ہم میاں صاحب کو کھو دیں۔‘
نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کے اقتباسات پڑھ کر عدالت میں سنائے۔جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ کیا آپ نوازشریف کے علاج سے مطمئن نہیں؟ جس پر انہوں نے کہا کہ ’ہمیں ڈاکٹرز کی قابلیت پر کوئی شک نہیں لیکن میڈیکل بورڈ خود ان کی رپورٹس سے مطمئن نہیں۔‘

جوں جوں سماعت کا وقت قریب آتا گیا کمرہ عدالت کے اندر اور باہر رش بڑھتا گیا (فوٹو:اردونیوز)

خواجہ حارث نے کہا کہ نوازشریف کو سات سال قید کی سزا ہوئی ہے اگر ان کی سزا پر عملدرآمد کروانا ہے تو اس کے لیے ان کا صحت مند ہونا ضروری ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ وہ ٹھیک ہوگئے اور ان کو جیل بھیج دیا جائے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اگر ریاست یہ سمجھتی ہے کہ وہ تندرست ہو گئے ہیں تو ضمانت خارج کرنے کی درخواست دائر کی جائے گی۔
خواجہ حارث کے بعد نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ نے دلائل کا آغاز کیا تو انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف اس سے قبل بھی طبی بنیادوں پر سپریم کورٹ سے 6 ہفتوں کی ضامنت لے چکے ہیں۔ کسی ڈاکٹر نے یہ تجویز نہیں کیا کہ نواز شریف کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں۔
عدالت نے طبی بنیادوں پر ضمانت کے حوالے سے کہا کہ یہ صوبائی معاملہ ہے اس پر حکومت کیوں اضطراب کا شکار ہے؟
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس  دیے کہ ہمارے پاس بنیادی طور پر چار آپشنز ہیں۔
1. ضمانت کی درخواست منظور کر لی جائے۔
 2. نواز شریف کو ٹائم فریم کے تحت ضمانت دی جائے۔
 3. معاملہ صوبائی حکومت کو بھیج دیا جائے۔
4.ضمانت کی درخواست مسترد دی جائے لیکن ہم اس آپشن پر غور نہیں کر رہے۔

وکیل نے استدعا کی نواز شریف کو ان کی مرضی کے ڈاکٹرز سے علاج کرانے کی اجازت ملنی چاہیے۔ فوٹو: اے ایف پی

جسٹس عامر فاروق نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ اگر ہم دوسرے اور تیسرے آپشن کو ضم کر لیں تو آپ کی کیا رائے ہوگی؟
خواجہ حارث نے کہا کہ ’آپ یہ معاملہ صوبائی حکومت کے پاس بھیجنے کی بات کر رہے ہیں لیکن سیاسی حریف کس طرح ایک سیاسی قیدی کے بارے میں فیصلہ کریں گے؟ ’نوازشریف کبھی بھی اس حکومت کے پاس درخواست لے کر نہیں جائیں گے۔ آپ قانون کے مطابق فیصلہ کریں۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی مخالفت ضرور ہوگی لیکن عدالت میں سیاست نہیں کی جاسکتی۔ حکومت فیصلہ کرے گی تو وہ ڈیل نہیں کہلائے گی۔ پوری قوم کو یہ تاثر دے دیا ہے کہ یہ سب ڈیل کا نتیجہ ہے۔ کسی نے بھی قانون نہیں پڑھا، اختیارات واضح ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ آپ قانون کے مطابق فیصلہ کریں ہم قانون کا احترام کرتے ہیں جس کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔

عدالتی فیصلہ کیا رہا؟؟؟

 کمرہ عدالت میں مسلم لیگ ن کے وکلا، کارکنان اور صحافی فیصلے کے منتظر تھے۔ تقریبا 20 منٹ کے وقفے کے بعد بنچ ایک بار پھر بیٹھا اور بنچ کے سربراہ جسٹس عامر فاروق نے فیصلہ سنانا شروع کیا۔ عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو 20، 20 لاکھ مچلکوں کے عوض 8 ہفتوں تک کی ضمانت منظور کر لی۔ اس دوران سابق وزیراعظم کی طبیعت بہتر نہ ہونے کی صورت میں وہ صوبائی حکومت کو رہائی کی درخواست دیں گے اور جب تک صوبائی حکومت ان کی درخواست پر فیصلہ نہیں کرتی تب تک وہ ضمانت پر رہیں گے۔ فیصلہ کے مطابق صوبائی حکومت سے اگر رجوع نہیں کیا جاتا تو 8 ہفتوں بعد ان کی ضمانت ختم تصور کی جائے گی۔

شیئر: