Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف کی ضمانت

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی ضمانت کی درخواست پر سماعت 29 اکتوبر تک ملتوی کر دی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں انسانی بنیادوں پر منگل تک عبوری ضمانت منظور کر لی ہے۔ اب مقدمے پر تفصیلی سماعت منگل 29 اکتوبر کو ہوگی۔
اس درخواست پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی ڈیویژنل بنچ سماعت کر رہا تھا۔ 
اس موقعے پر عدالت میں موجود ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب کا کہنا تھا کہ ’انسانی بنیادوں پر ہمیں نواز شریف کی ضمانت کی درخواست پر کوئی اعتراض نہیں۔‘
عدالت کے تحریری حکم نامے کے مطابق وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو منگل 29 اکتوبر کو ڈیڑھ بجے ذاتی حیثیت میں متعلقہ بنچ کے سامنے پیش ہونے کا کہا گیا ہے۔
حکم نامے میں یہ بھی تحریر ہے کہ ’ہم مطمئن ہیں کہ وفاقی حکومت اور حکومت پنجاب کو بھی ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں۔‘
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیئر رضوی نے چیئرمین نیب سے ہدایات لے کر عدالت کو بتایا کہ انہیں ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ’اگر حکومت درخواست ضمانت کی مخالفت کرے گی تو ہم ضمانت مسترد کر دیں گے لیکن اس دوران نواز شریف کو اگر کچھ ہوا تو ذمہ دار نیب اور حکومت ہو گی۔‘
قبل ازیں عدالت نے نیب ٹیم سے چئیرمین نیب سے پوچھ کر جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا تھا کہ آیا نیب نواز شریف کی ضمانت کی مخالفت کرتا ہے یا نہیں؟
عدالت کے مطابق مخالفت کی صورت میں نیب ایک بیان حلفی جمع کروائے گا کہ اگر منگل تک نواز شریف کو کچھ ہوا تو ذمہ دار وہ ہوگا۔
عدالت نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو بھی آدھے گھنٹے میں وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار سے پوچھ کر جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی العزیزیہ کیس میں سزا معطلی کی درخواست پر وزیر اعظم، پنجاب حکوت اور نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت کچھ وقت تک ملتوی کر دی تھی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دوران سماعت کہا تھا کہ سزا یافتہ قیدی کے معاملے میں صوبائی حکومت کو اختیار ہے کہ وہ سزا معطل کر سکتی ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صوبائی حکومت سزا معطل کر سکتی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

اس موقعے پر جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا تھا کہ ’کل سے آج کے درمیان کیا ایسی جلدی ہوئی کہ یہ جلد سماعت کی درخواست دائر کی گئی۔‘
نواز شریف کے وکیل خواجہ عدنان نے عدالت کو بتایا تھا کہ کل کے بعد سابق وزیراعظم کی طبعیت مزید خراب ہوئی ہے، ان کو معمولی ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور ان کی جان کو خطرہ ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما عطا اللہ تارڑ نے اردو نیوز کے نامہ نگار رائے شاہنواز کو بتایا ہے کہ نواز شریف کو گذشتہ رات دل کا دورہ پڑا تھا، جس کے بعد پارٹی نے ضمانت کی درخواست پر جلد سماعت کرنےکی پٹیشن آج صبح دائر کی تھی۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سنیچر کے روز درخواست دائر کی گئی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بگڑتی ہوئی صحت کے پیش نظر درخواست آج ہی سماعت کے لیے مقرر کی جائے۔

نواز شریف کو دل کا ’معمولی‘ دورہ

صوبائی وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے تصدیق کی کہ ’نواز شریف کو دل کا معمولی دورہ پڑا ہے تاہم اس سے کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا۔‘
ہفتے کو لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس دورے سے سابق وزیر اعظم کے دل کے پٹھے متاثر نہیں ہوئے اور ان کی ای سی جی رپورٹ پہلے جیسی آئی ہے۔

ڈاکٹر یاسمین کے مطابق نواز شریف کے دل کے پٹھوں کو نقصان نہیں پہنچا۔ فوٹو: ٹویٹر

وزیر صحت کے مطابق ’جس شخص کو ایک بار دل کا مرض لگ وہ ہمیشہ خطرے میں ہوتا ہے۔ نواز شریف کے پلیٹ لٹس زیادہ ہو رہے ہیں، ان کی تعدا 45 ہزار ہوگئی ہے جبکہ آج صبح ان کا بلڈ پریشر 140/90 تھا۔‘
علاوہ ازیں صوبائی وزیر سے قبل مسلم لیگ ن پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل عطا اللہ تارڑ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’کل رات کو میاں صاحب کو معمولی ہارٹ اٹیک آیا جس کے بعد پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ثاقب شفیع شیخ نے ان کا معائنہ کیا اور کئی ٹیسٹ کیے۔ جن میں یہ بات سامنے آئی کہ میاں صاحب کے اینزائمز پر اثر پڑا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ڈاکٹروں کو پہلے ہی خدشہ تھا کہ ایسی کسی صورت حال کا سامنا ہو سکتا ہے، اس لیے وہ تیار تھے، اور ڈاکٹروں نے بروقت معاملے کو سنبھال لیا۔‘ 
خیال رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے جسم میں خون کے سفید خلیے انتہائی کم ہونے کی بنا پر لاہور کے سروسز ہسپتال میں داخل ہیں۔
نواز شریف کے ڈاکٹروں نے لاہور لائی کورٹ میں جمع کروائی گئی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ نواز شریف کی ایک سے زائد بیماریاں ان کے علاج میں رکاوٹ ہیں، اگر ان کے سفید خلیوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی تو انہیں دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔ جمعے کو لاہور ہائی کورٹ نے شدید علالت کی وجہ سے ان کی ضمانت منظور کر لی تھی، جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست پر سماعت 29 اکتوبر تک ملتوی کر دی تھی۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ عدنان نے عدالت کو بتایا کہ سابق وزیراعظم کی جان کو خطرہ ہے۔ فوٹو: پی ایم ایل (ن)

تاہم سنیچر کے روز نواز شریف کے وکیل کی جانب سے ایک اور درخواست دائر کی گئی ہے، جس کے ساتھ نوازشریف کی میڈیکل رپورٹس بھی منسلک کی گئی ہیں۔
اس درخواست کے ساتھ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے بھی ایک متفرق درخواست دائر کی ہے جس میں 11 رکنی میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کو حصہ بنایا گیا ہے، اور بتایا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم کی حالت تشویشناک ہے اور ان کی سزا معطلی کے حوالے سے آج ہی سماعت کی جائے۔
لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کی گذشتہ روز چوہدری شوگر ملز کیس میں ضمانت منظور کر لی تھی، تاہم العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے باعث ان کی رہائی اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت کے ساتھ مشروط ہے۔ 
نواز شریف کو احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید کی سزا سنائی تھی جس کے بعد وہ کوٹ لکھپت جیل میں قید تھے۔ تاہم ان کی بگڑتی ہوئی صحت کے پیش نظر ان کو سروسز ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد شریف خاندان نے طبی بنیادوں پر نواز شریف کی ضمانت کے لیے درخواست دائر کی تھی۔ 
 

 

شیئر: