Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منشیات کا استعمال: اب میڈیکل طلبہ کے خون کا ٹیسٹ ہو گا

ویجیلنس کمیٹیاں ان طلبہ پر نظر رکھیں گی جن پر کسی بھی اعتبار سے منشیات کے استعمال شک کا ہو گا۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی حکومت کے محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر نے تمام میڈیکل کالجوں کو ایک مراسلہ لکھا ہے جس کے مطابق ’میڈیکل کالجوں کی انتظامیہ تمباکو کے استعمال پر پابندی مزید سخت کرنے کے ساتھ ساتھ منشیات کے استعمال کو روکنے کے لیے طلبہ کی سکریننگ کریں اور طلبہ کے ہیلتھ پروفائل بنائے جائیں جس میں بلڈ گروپ سے لے کر ہر طرح کی میڈیکل ہسٹری موجود ہو۔‘
محکمہ ہیلتھ کیئر کی جانب سے میڈیکل کالجز کو جاری ہدایت نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ کالجز کی حدود میں منشیات فروشی کے اڈوں کا بھی پتا چلایا جائے اور خاص طور پر کینٹینز اور دیگر چھوٹے عملے کو بھی بھرتی سے پہلے سکریننگ سے گزارا جائے۔
مراسلے میں ہدایت کی گئی ہے کہ محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر کے زیر انتظام تمام میڈیکل کالجز میں نگراں یا ویجیلنس کمیٹیاں بنائی جائیں جن میں شعبہ نفسیات، میڈیسن، فرانزک، کمیونٹی میڈیسن کا ایک ایک پروفیسر جبکہ ادارے کا قانونی مشیر اور طلبہ کا نمائندہ شامل کیا جائے۔
نگران کمیٹیاں ان طلبہ پر نظر رکھیں گی جن پر کسی بھی اعتبار سے منشیات کے استعمال کا شک ہو گا۔ کمیٹیاں سکریننگ کروانے کے لیے پولیس کی مدد بھی حاصل کر سکتی ہیں۔ جبکہ والدین کو میڈیکل کالج میں داخلے کے وقت اپنے بچوں کی طرف سے منشیات استعمال نہ کرنے کا سرٹیفیکیٹ بھی جمع کروانا ہو گا۔
خیال رہے کہ پاکستان میں نان سموکرز آرڈیننس 2002 کے تحت پہلے ہی عوامی مقامات بشمول سکول، کالجز سگریٹ اور منشیات کے استعمال پر پابندی ہے لیکن اس قانون پر کبھی مکمل عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ 
پنجاب حکومت کی جانب سے طلبہ کی سکریننگ کے فیصلے پر میڈیکل کے طلبہ کا ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ علامہ اقبال میڈیکل کالج کی طالبہ ایمن علی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں یہ کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے، طلبہ کی سکریننگ ان کو ٹیگ کرنے کے مترادف ہے۔ اکثریتی بچے صرف میڈیکل کی تعلیم پر توجہ دیتے ہیں جو اتنی مشکلات سے اتنے بڑے کالجز میں داخلہ لیتے اور ان کی زندگی کا دار ومدار اس ڈگری پر ہوتا ہے۔
ان کی سکریننگ ذہنی اذیت کے مترادف ہے۔ اگر کوئی مجھے سکریننگ کا کہے گا تو میں تو انکار کروں گی۔‘

پنجاب حکومت کی جانب سے طلبہ کی سکریننگ کے فیصلے پر میڈیکل کے طلبہ کا ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے بتایا کہ یہ بات بھی درست ہے کہ منشیات تعلیمی اداروں میں استعمال ہوتی ہے مگر اس کو روکنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کے سورس کو روکا جائے۔ ’پولیس کو سب پتا ہوتا ہے کہ منشیات کی سپلائی کون کرتے ہیں ان کو روکیں طلبا کی عزت نفس مجروح نہ کریں۔‘
کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے ایک طالب علم عامر ریاض نے اس حکومتی فیصلے کو سراہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’منشیات ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو صرف ایک آدھے اقدام سے نہیں روکا جا سکتا، ایک چیز کی ڈیمانڈ ہو گی تو سپلائی چین بن ہی جاتی ہے۔ آپ ڈیمانڈ کو روکیں سپلائی پر خود ہی فرق پڑے گا۔ جو شخص ڈرگز استعمال نہیں کرتا اس کو سکریننگ کروانے میں کیا مسئلہ ہو سکتا ہے؟‘
طلبہ کا موقف اپنی جگہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اکرم جاوید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ مسئلہ تو بہت سنجیدہ ہے اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ابھی تک میرے پاس مراسلہ نہیں آیا لیکن اگر آئے گا تو اس پر عمل درآمد بھی کیا جائے گا۔ ویجیلنس کمیٹیاں ایک اچھا قدم ہے۔‘

علامہ اقبال میڈیکل کالج کی طالبہ ایمن علی نے کہا ’اگر کوئی مجھے سکریننگ کا کہے گا تو میں تو انکار کروں گی۔‘ فوٹو: اے ایف پی

اس سوال پر کہ سکریننگ سے طلبہ پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ ان کا کہنا تھا میرے خیال میں یہ ٹارگٹڈ سکریننگ ہو گی جس پر شک ہو گا اسی کی کی جائے گی اور جب کمیٹی میں اتنے پروفیسر ہوں گے اور طلبہ کا نمائندہ بھی ہو تو وہ کسی کی سکریننگ کا سوچ سمجھ کر ہی کہیں گے۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے لاہور ہائی کورٹ کے ایک حکم پر سال دوہزار اٹھارہ سے کالجز اور یونیورسٹیوں کے اردگرد دکانوں پر تمباکو کی فروخت پر پابندی عائد کی تھی جس پر کسی حد تک عمل درآمد بھی ہو رہا ہے۔ طلبہ کے خون کے نمونوں کے ٹیسٹ جیسے اقدامات پہلے دیکھنے میں نہیں آئے۔

شیئر: