Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہم ایلیٹ نہیں ادھار پر کام چلانے والے ہیں‘

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ہونے منعقد ہونے والا فیض فیسٹیول کسی اور بات کی وجہ سے کسی کو یاد رہے نہ رہے عروج اورنگ زیب کے اپنے مخصوص انداز میں پڑھی گئی انڈین شاعر بسمل عظیم آبادی کی نظم ’سرفروشی کی تمنا‘ کی وجہ سے ضرور لوگوں کو یاد رہے گا۔
ان کے پرجوش انداز بیاں نے دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر قبضہ جما لیا۔ جہاں ایک طرح سے مشہوری ہوئی، وہیں لوگوں کے نہ سمجھ آنے والے لا تعداد تبصرے بھی معاشرے کی مجموعی سوچ کی عکاسی کرتے سامنے آئے۔ کسی نے ان کی کالے رنگ کی چمڑے کی جیکٹ کو نشانہ بنایا تو کسی نے خاتون اور ڈھول کی تھاپ پر گائیکی کے انداز میں نظم پڑھنے کو آڑے ہاتھوں لیا۔ کچھ نے تو دیکھتے ساتھ ’لمز کے برگر انقلابی بچے‘ کی اصطلاح ایجاد کر لی۔

عروج اور ان کے ساتھی 29 نومبر کو طلبہ کے حقوق کے لیے ملک گیر احتجاج کریں گے

اس 50 سیکنڈ کے ویڈیو کلپ نے قریباً ہر دماغ ہی آشکار کر دیا۔ کسی نے یہ تک جاننے کی کوشش نہیں کی کہ عروج کے لہجے کی تڑپ کا ماخذ کیا ہے اور وہ کس سرفروشی کی تمنا اپنے دل میں لیے ہوئے بجھے چراغ جلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ان کی کہانی انہی کی زبانی سننے کے لیے ان کے ٹھکانے پر پہنچا تو ایک درجن کے قریب ’سر پھرے نوجوان‘ جن میں ایک عروج بھی تھیں 29 نومبر کو ہونے والے ملک گیر طلبہ مارچ کی تیاریوں میں مصروف تھے۔

عروج کہتی ہیں کہ ’آپ مجھے بتائیں پنجاب یونیورسٹی سے پڑھنے والا بچہ کیسا ہونا چاہیے؟

مشکل سے ان سے انٹرویو کے لیے وقت لیا تو پہلا سوال یقیناً یہی تھا کہ فیض فیسٹیول میں ان کا گروپ کیا کر رہا تھا اور اس ویڈیو کلپ کے وائرل ہونے کے بعد لوگوں کے ردعمل کو وہ کیسے دیکھتی ہیں؟ ان کا جواب سادہ سا تھا ’میرے پاس اتنا وقت اور قوت ہرگز بھی نہیں ہے کہ لوگوں کی ایسی باتوں پر توجہ بھی دوں جو سرے سے کوئی معنی ہی نہیں رکھتیں، لیکن ایک بات میں ضرور کروں گی کہ میں پنجاب یونیورسٹی سے پڑھی ہوں، کیا لمز سے ہٹ کے دیگر اداروں سے پڑھنے والوں کے سینگ ہونے چاہئیں جس سے ان کی شناخت ہو؟‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’آپ مجھے بتائیں پنجاب یونیورسٹی سے پڑھنے والا بچہ کیسا ہونا چاہیے؟ اسی طبقاتی سوچ کے خلاف ہی تو میں اور میرے ساتھی نکلے ہوئے ہیں کہ آپ نے لوگوں کی سوچ کو ایسا کیوں بنا دیا گیا ہے کہ لڑکی ہو کے جیکٹ پہن کے نعرے لگانا امیر طبقے کو کسی صورت ظاہر نہیں کرتا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ان کی تنظیم کے لوگوں نے فیض فیسٹیول کو ایک ترقی پسند سوچ کے پلیٹ فارم کے طور پر دیکھا اور طلبہ کے حقوق کے لیے ہونے والے مارچ کے لیے پمفلٹس تقسیم کیے، ایک سٹڈی سرکل کیا اور نوجوانوں کو مارچ میں شرکت کی دعوت دی۔‘

عروج کے پرجوش انداز بیاں نے دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر قبضہ جما لیا

انہوں نے کہا کہ ’افسوس تو اس بات کا ہے کہ میرے پاس گرم کپڑے کے طور پر صرف یہ ایک جیکٹ ہی ہے، میں اتنا معمولی فون استعمال کرتی ہوں جس میں تین سے چار ایپلی کیشنز کھلنے پر ہینگ ہو جاتا ہے۔ ہمارے پاس طلبہ کو منظم کرنے کے لیے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں اور وسائل نہ ہونے کے باوجود ہمارے ارادے مضبوط ہیں اور ہم اپنی سیاسی جگہ کو حاصل کرنا چاہتے ہیں جو ہماری نوجوانوں کی تھی اور چھین لی گئی۔ ہم فیصلہ سازی میں اپنا حصہ لینے کے لیے جدوجہد کرتے رہیں گے۔‘
سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے تحت 29 نومبر کو ملک بھر کی طلبہ تنظیموں نے مشترکہ طور پر احتجاج کی کال دی ہے۔ منتظمین کے مطابق اس احتجاج کا مقصد اپنے مطالبات منوانا ہے جن میں طلبہ یونین سازی پر پابندی اٹھانا اور ہر تعلیمی ادارے میں جنسی ہراسیت کے خلاف کمیٹیوں میں طلبہ کو نمائندگی دلوانا بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ جامعات میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت، تعلیمی اداروں کی نجکاری کو روکنا اور فیسوں میں اضافے کی واپسی جیسے اقدامات شامل ہیں۔
عروج اورنگزیب کے مطابق فیض فیسٹیول میں پڑھی گئی بسمل عظیم آبادی کی نظم ان مسائل کو ہی اجاگر کرنے کے لیے تھی۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: