Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’نیب کے اختیارات کم کرنے کی تیاریاں‘

نیب سرکاری ملازمین کے خلاف کرپشن کی تحقیقات کے لیے سکروٹنی کمیٹی سے پیشگی اجازت لے گا، فوٹو: سوشل میڈیا
پاکستان میں وفاقی بیوروکریسی نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ احتساب کے ادارے قومی احتساب بیورو‘ (نیب) سے کئی ایک ذمہ داریاں واپس لے کر اس کا کردار محدود کیا جائے۔
اس سلسلے میں نیب آرڈیننس کے ترمیمی مسودے کو وفاقی بیوروکریسی کے سب سے بڑے فورم ’سیکرٹریز کمیٹی‘ کی سطح پر حتمی شکل دے دی گئی ہے۔
’اردو نیوز‘ کو دستیاب مسودے کے تحت نیب کو سرکاری ملازمین کے خلاف کرپشن کی کسی بھی قسم کی تحقیقات کے لیے سکروٹنی کمیٹی سے پیشگی اجازت لینا ہو گی۔
سکروٹنی کمیٹی میں چیئرمین نیب، سیکرٹری کابینہ، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، چیئرمین سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور چیئرمین ایف بی آر کے علاوہ وزارت قانون کے گریڈ 21 کا ایک نمائندہ بھی شامل ہو گا۔

 

مجوزہ ترمیمی مسودے کے مطابق نیب آرڈیننس میں مجموعی طور پر 30 سے زائد ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔
ان ترامیم کے تحت وفاقی حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ نیب کے لیے پراسیکیوٹر کی تعیناتی کا اختیار چیئرمین نیب سے واپس لے کر اپنے پاس رکھے۔
یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ نیب آرڈیننس کے تحت ملزم کو ضمانت دینے کا اختیار احتساب عدالت کو دیا جائے۔ کسی بھی الزام کی تحقیقات چھ ماہ میں مکمل کرنا ہوں گی۔ نیب کی حراست میں ملزم کا ریمانڈ 90 کے بجائے صرف 14 روز رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔
مجوزہ ترمیمی مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کوئی فریق احتساب عدالت کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہے تو وہ 30 روز کے اندر اندر اپیل کا حق رکھتا ہے۔ اس سے پہلے اپیل کے لیے 10 دن رکھے گئے تھے۔
نیب آرڈیننس میں ایک نیا سیکشن تجویز کیا گیا ہے کہ چیئرمین نیب جلد سے جلد اپنے ادارے کے خلاف آنے والی شکایات کے حل کے لیے میکنزم تیار کریں گے۔ اس میکنزم کے تحت آنے والی شکایات اور ان کے حل کی رپورٹ ہر تین ماہ بعد وفاقی حکومت کو پیش کرنا ہو گی۔

مسودے کے تحت کسی الزام کی انکوائری کے دوران نیب افسر بیان جاری نہیں کر سکے گا، فوٹو: سوشل میڈیا

ترمیمی مسودے میں نیب حکام پر کچھ پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں جن کے تحت کسی بھی الزام کی انکوائری کے دوران کوئی بھی نیب افسر اس وقت تک کوئی بیان جاری نہیں کر سکتا جب تک احتساب عدالت میں ریفرنس دائر نہیں کر دیا جاتا۔
اسی طرح تحقیقات کے دوران مالیاتی اداروں اور سرکاری اداروں سے ملنے والی معلومات اور ریکارڈ صرف اور صرف متعلقہ تحقیقات کے لیے ہی استعمال ہو سکے گا۔
سابق پراسیکیوٹر نیب شہزاد انور بھٹی نے کہا ہے کہ ’بیورو کریسی کی جانب سے مجوزہ ترامیم نیب کو وفاقی حکومت کے ماتحت کرنے کی کوشش ہے۔‘
’اردو نیوز‘ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ’ بیوروکریسی کو ہاتھ نہ لگانے کا مطلب احتساب کے عمل کو تالہ لگانے کے مترادف ہے۔ کسی بھی مد میں رقم خرچ کرنے کا اختیار کسی سیاست دان کو نہیں بلکہ بیوروکریٹ کو ہوتا ہے کیونکہ پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر بیوروکریٹ ہوتا ہے۔ بیوروکریٹ ہی سیاست دانوں کو کرپشن کا راستہ بتاتے ہیں۔‘

 مسودے میں پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی کا اختیار چیئرمین نیب سے لینے کی تجویز ہے، فوٹو: سوشل میڈیا

انھوں نے کہا کہ ’چیئرمین نیب کی جانب سے کسی بھی ملزم کی گرفتاری کا حکم تب آتا ہے جب اس کو صفائی کا پورا موقع دیا جا چکا ہوتا ہے۔ اس کے بعد بھی گرفتاری کی تین وجوہات ہوتی ہیں کہ ملزم تعاون نہیں کر رہا، اس کے بھاگ جانے کا خدشہ ہے یا پھر اس کے اثر و رسوخ کی وجہ سے گواہوں اور ثبوتوں کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔‘
سابق پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق اپنے ساتھی کی باتوں سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے مطابق ’مجوزہ ترامیم سے فرد واحد کو حاصل لا محدود اختیارات کم ہوں گے اور نیب کے رویے میں تبدیلی آئے گی۔‘
شہزاد انور بھٹی نے کہا کہ ’سکروٹنی کمیٹی سے منظوری کا مطلب یہ ہے کہ نیب کی غیر جانب دار اتھارٹی ختم ہو جائے گی۔ کمیٹی میں شامل بیوروکریٹ کبھی بھی اپنی برادری کے خلاف کسی کارروائی کے حق میں نہیں ہوں گے۔‘

 

عمران شفیق کہتے ہیں کہ ’سکروٹنی کمیٹی کی تجویز اچھی ہے اس سے فرد واحد کے اختیار پر چیک ہو گا۔ موجودہ قانون کے تحت ایک فرد کیس بناتا ہے، گرفتار بھی کرتا ہے، 90 دن کا ریمانڈ بھی لیتا ہے اور ملزم کو ضمانت کا حق بھی نہیں اور آخر میں عدالتوں میں نیب کا حال آشیانہ اور ایل این جی کیسز جیسا ہوتا ہے۔‘
عمران شفیق نے کہا کہ ’سکروٹنی کمیٹی جس شخص کی گرفتاری کی سفارش کرے گی وہ کبھی باہر نہیں آ سکے گا۔‘
احتساب عدالت کی ضمانت کا اختیار دینے کی تجویز سے متعلق شہزاد انور بھٹی نے کہا کہ ’نیب مقدمات میں ضمانت نہ رکھنے کی وجہ یہی تھی کہ اعلیٰ سرکاری افسران ضمانت کے بعد اپنے عہدے پر جا کر گواہان کو ڈرا دھمکا سکتے ہیں اور فائلوں میں موجود ثبوت ختم کر سکتے ہیں۔ ماضی قریب میں کئی ایک بڑے مقدمات میں ایسا ہو چکا ہے۔‘
عمران شفیق نے کہا کہ ’احتساب عدالتوں کے پاس ضمانت کا اختیار نہ ہونے کے باعث ملزمان درخواست کے ذریعے ہائی کورٹ سے ضمانت حاصل کرتے تھے۔ احتساب عدالت کو ضمانت کا اختیار ملنے سے ہائی کورٹ کا بوجھ کم ہو گا جبکہ احتسابی عمل سے انتقام کی بو بھی کم آئے گی۔‘

 چیئرمین نیب اپنے ادارے کے خلاف شکایات کی رپورٹ تین ماہ بعد وفاقی حکومت کو پیش کریں گے، فوٹو: اے پی پی

پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی کا اختیار چیئرمین نیب سے لے کر وفاقی حکومت کو دینے کے حوالے سے شہزاد انور بھٹی کہتے ہیں کہ ’وکلا کی سیاسی وابستگیاں ہوتی ہیں اور حکومت اپنی مرضی کے وکلا کو پراسیکیوٹر تعینات کرے گی تو نہ صرف احتساب کے عمل کی غیر جانبداری متاثر ہو گی بلکہ حکومت کی جانب سے اثر انداز ہونے کی کوشش ہو گی۔
انھوں نے کہا کہ ’ایسا قانون منظور ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘
اس حوالے سے عمران شفیق الگ رائے رکھتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ ’چیئرمین نیب اور پراسیکیوٹر نیب کی تقرری کا طریقہ کار ایک جیسا ہونا چاہیے۔‘

شیئر: