Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مارخور کا قانونی شکار، اطالوی شہری نے 83 ہزار ڈالر ادا کیے

اطالوی شکاری نے 83500 امریکی ڈالر بطور فیس ادا کی تھی
پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان میں ایک اطالوی شہری رواں سیزن میں مارخور کا شکار کرنے والے پہلے شکاری قرار پائے ہیں۔ 
گلگت بلتستان کے محکمہ جنگلی حیات کے مطابق جمعرات کو سکردو میں ایس کے بی کمیونٹی کنٹرولڈ ہنٹنگ ایریا میں اطالوی شہری کارلو پاسکولے کیمپانینی بونومی نے 47 انچ سائز کے سینگوں والے مارخور شکار کیا ہے۔
محکمہ جنگلی حیات کے مطابق مارخور کے شکار اس پرمٹ کے لیے اطالوی شکاری نے 83500 امریکی ڈالر بطور فیس ادا کی تھی۔ 

 

خیال رہے کہ گلگت بلتستان کے محکمہ جنگلی حیات نے رواں سال نومبر میں مارخور کے شکار کے لیے چار لائنسسز کی نیلامی کی تھی جس کا مقصد مقامی آبادی کی فلاح و بہبود اور غیرقانونی شکار کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ 
مارخور کے شکار کا ایک لائسنس 80 ہزار امریکی ڈالر سے زائد رقم میں نیلام کیا گیا تھا۔ 
حکومت پاکستان کی ٹرافی ہنٹنگ سکیم کے مطابق ہر سال مارخور کے شکار کے 12 لائسنس جاری کیے جاتے ہیں جن میں سے چار گلگت بلتستان کے لیے مختص ہوتے ہیں۔ 
مارخور کے شکار کے پرمٹ کا دورانیہ تین ماہ تک ہوتا ہے اور اس دوران شکاری پہاڑی علاقوں میں پرمٹ کے مطابق شکار کے لیے آتے ہیں۔
محکمہ جنگلی حیات کے مطابق پرمٹ سے ملنے والی رقم کا 80 فیصد حصہ مقامی آبادی پر خرچ کیا جاتا ہے اور باقی 20 فیصد اس نایاب جانور کی افزائش نسل اور ناپید ہونے سے بچانے  کے اقدامات پر صرف کیا جاتا ہے۔

محکمہ جنگلی حیات کے مطابق مارخور کے شکار پر پورا سال پابندی ہوتی ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

محکمہ جنگلی حیات کے مطابق مارخور کے شکار پر پورا سال پابندی ہوتی ہے اور مقامی آبادی پر مشتمل نایاب جانوروں کے تحفظ اور بچاؤ کے لیے کام کرنے والی کمیٹیاں اس جانور کے شکار پر پابندی کے اطلاق میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔
جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف پاکستان (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے مطابق کچھ عرصہ قبل تک مارخور کا شمار عالمی طور پر معدومی کے خطرے سے دوچار جانوروں میں ہوتا تھا۔ اس جانور کی مختلف اقسام گلگت بلتستان کے برف پوش پہاڑوں کے علاوہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بھی پائی جاتی ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے مطابق غیر قانونی شکار، ٹرافی ہنٹنگ، جنگلات کے کٹاؤ، بیماریوں اور دیگر عوامل کے باعث اس جانور کی نسل کو نقصان پہنچا ہے۔ جبکہ اس کی نسل کے بچاؤ کے لیے تنظیم مقامی افراد کی تربیت اور آگہی مہم بھی کرتی رہی ہے۔

شیئر: