Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشرف کے پاس سزائے موت سے بچنے کا قانونی راستہ کیا ہے؟

سنگین غداری کیس کی سماعت کے لیے قائم خصوصی عدالت کی طرف سے سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت سنائے جانے کے بعد قانونی ماہرین کے مطابق پرویز مشرف کے پاس سپریم کورٹ میں اپیل کا حق موجود ہے تاہم اس حق کو استعمال کرنے کے لیے انھیں ’سرنڈر‘ کرنا پڑے گا۔
منگل کو خصوصی عدالت کی جانب سے پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دیے جانے کے بعد  موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ پرویز مشرف اس وقت کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھے۔ عدالت نے مختصر حکم نامے کے ذریعے سزا سنائی اور کہا کہ تفصیلی فیصلہ 48 گھنٹے میں جاری کر دیا جائے گا۔
اردو نیوز سے گفتگو میں پرویز مشرف کے دور حکومت میں وزیر قانون رہنے والے خالد رانجھا نے کہا کہ ’ٹرائل کورٹ کو مختصر حکم نامہ جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ ٹرائل کورٹ کو تمام وجوہات کے ساتھ تفصیلی فیصلہ ہی جاری کرنا ہوتا ہے۔‘
خالد رانجھا نے کہا کہ ’پرویز مشرف صرف اس مختصر حکم نامے کو بھی چیلنج کر دیں تو سپریم کورٹ اسے غیر قانونی و غیر آئینی قرار دے سکتی ہے۔ تفصیلی فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے سرنڈر کرنا لازمی ہے۔‘
پرویز مشرف کے سابق ساتھی احمد رضا قصوری نے کہا کہ ’یہ درست ہے کہ قانون کے مطابق اپیل کے لیے سرنڈر کرنا لازمی ہے لیکن قانون موم کی ناک کی طرح ہوتا ہے جسے جس طرف چاہے موڑا جا سکتا ہے۔ اس لیے پرویز مشرف سرنڈر کیے بغیر بھی اپیل کا حق رکھتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس ملک میں عدالتوں نے دس، دس سال بعد بھی اپیلیں سن کر نواز شریف کو ریلیف دیا ہے۔‘
ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اکرام چوہدری کہتے ہیں کہ ’اس ملک میں ابھی تک تو سرنڈر کرنے کے علاوہ اپیل کی روایت موجود نہیں ہے۔ اس لیے پرویز مشرف کو قانونی راستہ اپناتے ہوئے سرنڈر ہی کرنا ہوگا اس کے بعد وہ اپیل کا حق استعمال کر سکیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’وفاقی حکومت اس فیصلے پر عمل درآمد کرانے، مشرف کو وطن واپس لانے اور سزا پر عملدر آمد کرانے کی مکمل پابند ہے۔ البتہ حکومت کو ایسا کرنے کے لیے ہمت دکھانا پڑے گی۔‘

تفصیلی فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے سرنڈر کرنا لازمی ہے: خالد رانجھا (فوٹو اے ایف پی)

جولائی 2018 میں احتساب عدالت کی جانب سے نواز شریف اور مریم نواز کو ان کی عدم موجودگی میں سزا سنائی گئی تھی۔ اس وقت قانونی ماہرین نے قرار دیا تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز اپیل کا حق صرف اسی صورت استعمال کر سکتے ہیں جب وہ خود کو عدالت کے سامنے سرنڈر کرتے ہوئے جیل جائیں گے۔ 
دوسری جانب  سابق صدر پرویز مشرف کی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ پارٹی اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی، پارٹی قانونی ماہرین سے رابطے میں ہے، مستقل کے لیے لائحہ عمل طے کر لیا جائے گا۔
مزید کہا گیا ہے کہ سابق صدر کی جانب سے بار بار استدعا کے باوجود عدالت نے انہیں دفاع کا حق نہیں دیا اور ان کی غیر موجودگی میں فیصلہ سنا دیا گیا حالانکہ پرویز مشرف درخواست کر چکے تھے کہ غیر موجودگی میں فیصلہ نہ سنایا جائے۔
آل پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے
خصوصی عدالت کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے، فیصلہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پرویز مشرف جان لیوا بیماری سے لڑ رہے ہیں فیصلہ آنا مناسب نہیں ہے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں