Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہریت کے متنازع قانون پر’انڈیا تقسیم ہو گا‘

گذشتہ ایک ہفتے سے انڈیا میں شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ فوٹو:اے ایف پی
شہریت کے نئے ترمیمی قانون کے خلاف نئی دلی میں جاری احتجاجی مظاہروں میں پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کی ہے۔ یہ مظاہرے اس وقت زور پکڑ گئے جب انڈیا کے دونوں ایوانوں سے قانون منظور ہوا۔
اس قانون کے تحت انڈیا کی شہریت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے صرف ہندو پناہ گزینوں کو دی جائے گی۔ اس نئے ترمیمی قانون کے خلاف نہ صرف سول سوسائٹی بلکہ طلبا نے بھی احتجاج کیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ مظاہرے انڈیا کے تقریباً ہر بڑے شہر میں ہوئے جن میں چھ افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔

نئی دلی کے مسلمان آبادی والے علاقوں میں مظاہرے ہوئے جس پر پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کی۔ فوٹو:اے ایف پی

نئی دلی کے علاوہ ہزاروں مظاہرین مغربی بنگال، کلکتہ اور تامل ناڈو میں بھی بائیں بازو کی طلبا تنظمیوں نے مظاہرے کیے۔ کلکتہ میں طلبا کا مشعل بردار جلوس بھی نکلا۔
انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے مظاہرین سے پرامن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بل سے انڈیا کے شہری متاثر نہیں ہوں گے۔

ان طلبا تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ انڈین حکومت اس بل میں ترمیمی ایکٹ کو واپس لے۔ فوٹو: اے ایف پی

وزیر داخلہ امت شاہ کا کہنا ہے کہ وہ ترمیمی بل واپس نہیں لیں گے۔ انڈین چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا ہے ’جو بھی ہو مودی حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ مودی حکومت پناہ گزینوں کو شہریت دے گی تاکہ وہ عزت کے ساتھ انڈیا میں رہیں۔‘
ترمیمی بل میں بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کی چھ اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو انڈین شہریت دیے جانے کی بات کی گئی ہے۔ ان مذہبی برادریوں میں ہندو، بودھ، جین، پارسی، مسیحی اور سکھ شامل ہیں لیکن مسلمانوں کو اس سے باہر رکھا گیا ہے۔

انڈین حکومت نے بیشتر علاقوں میں مظاہروں کی وجہ سے تعلیمی ادارے بھی بند کیے ہوئے ہیں۔ فوٹو:اے ایف پی

وزیراعظم نریندر مودی نے اپوزیشن جماعت کانگریس پر الزام لگایا ہے کہ کانگریس ملک میں تشدد کو پھیلانا اور خوف کی فضا قائم کرنا چاہتی ہے۔

ملک میں جاری مظاہروں سے ٹرینوں کا شیڈول بھی متاثر ہوا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا یہ بل ان کو قبول نہیں۔ فلم ساز گوتم گوش کے مطابق اس ترمیمی بل کے خلاف مزید مظاہرے ہوں گے، اس قدم  سے ملک تقسیم ہو گا۔

گجرات میں سماجی کارکن شمشاد پٹھان کو پولیس نے احتجاج کے وقت گرفتار کیا۔ فوٹو: اے ایف پی

اس ترمیمی قانون کو عام طور پر مسلم مخالف بل کہا جا رہا ہے اور اسے انڈین آئین کی روح کے منافی قرار دیا جا رہا ہے۔ 

ان مظاہروں میں وزیر داخلہ امت شاہ کے استعفے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

انڈیا کے مسلمان گروپ، اپوزیشن جماعتیں، اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بل کو وزیراعظم نریندر مودی کے 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں کو پسماندہ رکھنے کے ہندو قوم پرست ایجنڈے کا حصہ گردانتے ہیں۔ تاہم مودی اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ایک مسلم جماعت نے اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ بل انڈیا کے آئین اور ملک کی سیکولر روایات کے خلاف ہے۔

شیئر: