Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین شہریت صرف ہندو پناہ گزینوں کے لیے؟

شمال مشرقی ریاستوں میں خود بی جے پی اس ترمیمی بل کے خلاف نظر آتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا کی پارلیمان میں شہریت کا ترمیمی بل (سٹیزن شپ امینڈمنٹ بل یا کیب) پیر  کو پیش کیا جا رہا ہے اسے وزیر اعظم نریندر مودی کی کابینہ نے پہلے ہی منظور کر لیا ہے۔
یہ بل پہلے دن سے ہی تنازعے کا شکار ہے اور شاید اسی لیے مرکزی حکومت نے اس بل کو ایوان میں پیش کیے جانے سے قبل اپنے تمام اراکین پارلیمان سے ایوان میں حاضر رہنے کی اپیل کی ہے۔
ایوان زیریں (لوک سبھا) میں بی جے پی کی اکثریت ہے لیکن ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں اسے بظاہر اکثریت حاصل نہیں ہے تاہم حکومت یہ چاہے گی کہ دونوں ایوانوں میں اس بل کو منظوری حاصل ہو جائے اور اس کے لیے وہ اپنی پوری طاقت لگا دے گی۔

 

شہریت کے اس مجوزہ بل میں 1955 کے شہریت کے قانون میں ترمیم کی جا رہی ہے۔ اس میں بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کی چھ اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو انڈین شہریت دیے جانے کی بات کہی گئی ہے۔
ان مذہبی برادریوں میں ہندو، بودھ، جین، پارسی، مسیحی اور سکھ شامل ہیں لیکن مسلمانوں کو اس سے باہر رکھا گیا ہے یعنی ان ممالک سے آنے والے مسلمانوں کو انڈین میں شہریت حاصل کرنے کا حق نہیں ہوگا۔
انڈیا میں شہریت حاصل کرنے کے موجودہ قانون کے تحت کسی بھی شخص کو انڈین شہریت کے لیے کم از کم 11 سال کی مدت ہندوستان میں گزارنی ضروری ہے لیکن اس ترمیمی بل میں پڑوسی ممالک پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کی اقلیتی برادری کو چھوٹ دی گئی ہے اور 11 سال کی مدت کو کم کرکے چھ سال کیا گيا ہے۔
اس ترمیمی بل کو عام طور پر مسلم مخالف بل کہا جا رہا ہے اور اسے انڈین آئین کی روح کے منافی قرار دیا جا رہا ہے۔ ماہرین قانون اسے آئین کے آرٹیکل 14 (مساوی حقوق) کی خلاف ورزی کہتے ہیں۔

این آرسی کی جاری کردہ فہرست میں آسام میں آباد تقریباً 20 لاکھ افراد کا نام نہیں تھا (فوٹو: اے ایف پی)

اس کی مخالفت اس لیے بھی ہے کہ یہ ملک سیکولر ہے یعنی ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ایک ایسے ملک میں کسی کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر تفریق کیونکر کی جا سکتی ہے۔
اس بل میں کئی شمال مشرقی ریاستوں کو استثنیٰ حاصل ہے تاہم آسام، میگھالیہ، منی پور، میزورم، تریپورہ، ناگالینڈ اور اروناچل پردیش میں اس ترمیمی بل کی شدومد کے ساتھ مخالفت کی جا رہی ہے۔
خیال رہے کہ یہ ریاستیں بنگلہ دیش کے قریب ہیں اور بہت سے لوگ وہاں سے نکل کر ان ریاستوں میں آباد ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ سمیت بی جے پی کے بہت سے رہنما کئی بار کہہ چکے ہیں کہ انڈیا میں پڑوسی ممالک سے نقل مکانی کرنے والے ہندوؤں کو بطور خاص ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
انڈیا کی دوسری سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی اپنے ہندو ووٹ بینک کو مستحکم کرنے کے لیے بھی یہ بل لا رہی ہے تاکہ ہندو پناہ گزینوں کو انڈیا کی شہریت دی جا سکے۔

این آرسی کی جاری کردہ فہرست میں آسام میں آباد تقریباً 20 لاکھ افراد کا نام نہیں تھا (فوٹو: سوشل میڈیا)

گذشتہ مہینوں کے دوران آسام میں نیشنل رجسٹر آف سیٹیزن (این آر سی) کے تحت وہاں کے شہریوں کی جو فہرست جاری کی گئی تھی وہ بھی تنازعے کا شکار رہی۔
این آرسی کی جاری کردہ فہرست میں آسام میں آباد تقریباً 20 لاکھ افراد کا نام نہیں تھا۔ ہر چند کہ حکومت نے اس میں شامل افراد کی مذہبی شناخت کو ظاہر نہیں کیا ہے تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ اس میں زیادہ تر ہندو فہرست سے باہر رہ گئے ہیں جو کہ بنگلہ دیش سے ترک وطن کر نے کے بعد آسام میں آباد ہوئے تھے اور وہ بنگالی بولنے والے ہندو ہیں۔
حکومت پر یہ الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں کہ وہ اس ترمیمی بل کے بہانے این آر سی کی فہرست سے باہر ہونے والے غیرقانونی ہندوؤں کو انڈین شہریت دینا چاہتی ہے۔
یہ عجیب بات ہے کہ شمال مشرقی ریاستوں میں خود بی جے پی اس ترمیمی بل کے خلاف نظر آتی ہے۔ لیکن بی جے پی یا سنگھ پریوار کی مسلمانوں کو حاشیے پر پہنچانے کی دیرینہ خواہش رہی ہے اور اس کے لیے وہ پورے ملک میں این آر سی کی بات کر رہے ہیں اور اسے عملی جامہ پہنانے کے درپے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اس کے خلاف شور کئی دنوں سے نظر آ رہا ہے اور 'کیب اگينسٹ کانسٹی ٹیوشن' جیسے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہے ہیں اور لوگ برملا اسے مسترد کرتے نظر آ رہے ہیں۔
 
 
سماجی سیاسی کارکن ہنس راج مینا نے لکھا 'میں اس بل کو مسترد کرتا ہوں، یہ ہندوستان کے لیے اچھا نہیں ہے۔'
 
 
سماجی کارکن عمر خالد نے بی جے پی کی دوہری پالیسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے 'انڈیا ریجیکٹس این آرسی' اور 'کیب اگينسٹ کانسٹی ٹیوشن' ہیش ٹیگز کے ساتھ لکھا: ہندوستان میں کہتے ہیں کہ ہم تمام 'بنگلہ دیشی در اندازوں' کو واپس پھینک دیں گے۔ وہ دیمک ہیں۔
بنگلہ دیش میں کہتے ہیں کہ’پریشان نہ ہوں ہم انہیں واپس نہیں بھیج رہے ہیں۔ تو پھر آخر یہ ساری این آر سی نامی مشق کیا ہے؟'

شیئر: