Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب سب جوتے کی نوک پر ہو

واوڈا نے جو کیا اسے کہتے ہیں نان ایشوز کے تلوے تلے اصل ایشوز سے توجہ ہٹانا، فائل فوٹو
یہ کہانی فیصل واوڈا کی پیدائش سے کئی برس پہلے کی ہے۔ سوویت کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل نکیتا خروشیف اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں سوویت وفد کی قیادت  کر رہے تھے۔ فلپائن کے مندوب لورینزو سمولانگ نے اپنے خطاب کے دوران خروشیف کی دکھتی رگ پر حملہ کیا کہ مشرقی یورپ کے ممالک روس کی غلامی کے چنگل میں سسک رہے ہیں۔ بس پھر کیا تھا خروشیف نے عین تقریر کے دوران سمولانگ کو روکا اور ہوا میں مکہ لہراتے ہوئے اسے امریکی پٹھو اور سامراجیوں کے بوٹ چاٹنے والا کہا اور پھر داد دینے کے انداز میں اپنا جوتا اتار کے ڈیسک پر زور زور سے بجایا۔
12 اکتوبر 1960کو پیش آنے والے اس تاریخی واقعہ پر تیسری دنیا کے کئی سوویت دوست ممالک نے خروشیف کی جرات کی تعریف کی مگر مغربی اشرافیہ نے اس بدتہذیبی پر تھُو تھُو کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی سفارت کاری کی روایات کے منہ پر جُوتا قرار دیا۔

 

اب آپ دیکھیے کہ ٹاک شو میں وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا نے جو جُوتا ڈیسک پر رکھا اس کے وزن تلے کیسے کیسے مسائل دب گئے۔ جیسے پرویز مشرف کو سزا دینے والی عدالت کو لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے غیر آئینی قرار دینے کے نتائج  پر ممکنہ بحث پتلی گلی سے نکل گئی، کشمیر سے بلوچستان تک شدید سردی اور برف باری میں 100 کے لگ بھگ لوگوں کی ہلاکت خبر کے زینے پر ہی ٹھٹھر کے رہ گئی۔ زینب الرٹ بل کی قومی اسمبلی سے منظوری کے باوجود اس پر میڈیا میں سیر حاصل گفتگو خاموشی سے رفو چکر ہو گئی۔
کیا رسمی میڈیا، کیا سوشل میڈیا، کیا کارٹون، کیا ٹاک شوز، کیا روزمرہ گفتگو، سب کے سب ہنسی ٹھٹھول یا ہلکی پھُلکی تنقید کے دھاگے میں بندھ کے یک جفت ہو گئے۔
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
سب  کے سب جُوتے کے اسیر ہوئے
اسے کہتے ہیں نان ایشوز کے تلوے تلے اصل ایشوز سے توجہ ہٹا کے دبانے کا فن۔

سب کچھ جُوتے کی نوک پر ہو تو پھر ٹاک شو میں جُوتا میز پر رکھنا نارمل ہے، فوٹو: سوشل میڈیا

تادمِ تحریر آئی ایس پی آر نے فوجی جُوتے کی اس انداز سے تشہیر پر کوئی تعریفی یا تنقیدی ٹویٹ نہیں چلایا۔ اپوزیشن تو خیر اس وقت ہے ہی سو جُوتے اور سو پیاز والی پوزیشن میں۔
یہاں تک آ تو گئے آپ کی محبت میں
 اب اور کتنا گناہ گار کرنا چاہتے ہیں
چند دن کی بات ہے کوئی اور نوٹنکی شروع ہو جائے گی اور واوڈا کا جُوتا بھی اس نوٹنکی تلے دب جائے گا۔ ویسے بھی لوگوں کو اس وقت ریفارمرز سے زیادہ پرفارمرز کی ضرورت ہے اور پی ٹی آئی کے پاس ایک سے ایک موجود ہے۔ ان سب کے ہوتے یونہی ہنستے کھیلتے جوتیاتے ہوئے باقی مدت بھی بیت جائے گی۔
جُوتے اور سیاست کا رشتہ ویسے بھی بہت پرانا ہے۔ 359 عیسوی میں رومن شہنشاہ کانٹینٹئس دوم نے جب ایک اُونچی جگہ کھڑے ہو کر مقبوضہ وسطی یورپ میں لینمگانٹس قبیلے سے بیعت طلب کی تو جواب میں کسی نے شہنشاہ پر جُوتا اچھال دیا۔ اس کے بعد لینمگانٹس لوگ کہاں گئے کچھ پتا نہ چلا۔

 ارباب غلام رحیم کے منہ پر جُوتا پڑا، دو چار دن ہا ہا کار ہوئی پھر سب بھول گئے، فوٹو: ٹوئٹر

دسمبر 2008 کو بغداد میں ایک صحافی منتظر الزیدی نے پریس کانفرنس کے دوران صدر بش پر دو جُوتے اچھال دیے اور دونوں بار ہی بش بچ گئے۔ زیدی عرب نوجوانوں کا کچھ روز کے لیے ہیرو بن گیا۔ منتظر کچھ عرصے جیل میں رہا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔۔
سات اپریل 2008 کو سندھ اسمبلی کے احاطے میں پیپلز پارٹی کے ایک جیالے آغا جاوید پٹھان نے سندھ کے سابق وزیرِ اعلیٰ ارباب غلام رحیم کے منہ پر جُوتا جڑ دیا۔ دو چار دن ہا ہا کار ہوئی پھر سب بھول بھال گئے۔
مخالفین کو جُوتے دکھانا ایک عام بات ہے۔ کچھ غصے میں آجاتے ہیں اور کچھ نظرانداز  کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ مثلاً وزیرِ اعظم بھٹو نے پنجاب میں ایک جلسہ کیا تو کچھ شرکا نے ہاتھوں پر جوتے بلند کر دیے۔

منتظر الزیدی نے بش پر جُوتے اچھالے اور چند روز کے لیے ہیرو بن گیا تھا، فوٹو: سوشل میڈیا

بھٹو صاحب نے صورتِ حال کو بھانپتے ہوئے کہا، پہن لو پہن لو۔مجھے معلوم ہے کہ یہاں اتنی غربت ہے کہ بہت سے لوگوں کے پاس جوتے تک نہیں۔ میں جلد ہی اس علاقے میں جوتوں کا کارخانہ کھول دوں گا۔ یوں تالیوں کی گونج میں ایک ناخوش گوار بات آئی گئی ہو گئی۔
سن 1940 کے عشرے کا یہ واقعہ بھی اس زمانے میں مشہور ہوا کہ مولانا ظفر علی خان اپنے ایک جفت فروش دوست کی دکان پر بیٹھے خوش گپیاں کر رہے تھے۔ سامنے سے کانگریس کا جلوس آتا دکھائی دیا۔ مولانا نے اسی وقت گتے پر ایک فی البدیہہ شعر لکھ کے لٹکا دیا۔
کانگریس آ رہی ہے ننگے پاؤں
جی میں آتا ہے بڑھ کے دُوں جُوتا

 اس کے بعد اگلا مرحلہ تو یہی ہے کہ پارلیمنٹ کے ڈیسک پر کوئی جُوتا بجا دے، فائل فوٹو

فیصل واوڈا نے جو کیا ہے اس حرکت کے بعد کا اگلا مرحلہ تو یہی ہے کہ کوئی دن جاتا ہے کہ پارلیمنٹ کے ڈیسک پر کوئی جُوتا بجا دے اور پھر کوئی اور کسی دن کسی معزز رکن کے سر پے جُوتا بجا دے۔ اچھائی کا تو معلوم نہیں کہ کس رفتار سے پھیلتی ہے مگر بُرائی جُوتے کی اُڑان کی رفتار سے پھیلتی ہے۔ جلد ہی کہیں نہ کہیں سے اگلے مرحلے کی جوتم گستری کا ثبوت ملنے والا ہے۔
جب سب کچھ ہی جُوتے کی نوک پر ہو تو پھر ایک ٹاک شو میں جُوتا اٹھا کے میز پر رکھنا ہرگز ہرگز کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں بلکہ ایک نیا نارمل ہے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں