Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شیر شاہ سوری دراصل بزدار تھے

وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اپنے اقدامات کی تشہیر نہیں کرتے (فوٹو: اے ایف پی)
یہ جملہ تو اب گھس پٹ کے کلیشے ہو گیا ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اور پھر بحثیت جنوبی ایشیائی نہایت جذباتی لوگ ہیں۔ باقی دنیا میں جہاں ہوش ہتھیار ڈال دیتا ہے وہاں جوش کی نیام سے شمشیر نکالی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں جب جوش ہانپ جاتا ہے تب کہیں جگہ کے ہوش کو ہاتھ مارا جاتا ہے۔ اس ناتے اقبال کو دراصل یہ کہنا چاہیے تھا،
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ جوش
 لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
ہم یا تو قلابے ملاتے ملاتے پسندیدہ بات اور فرد کو ساتویں آسمان پر بٹھا دیتے ہیں یا پھر جو ناپسند ہو اسے پاتال سے بھی نیچے دے مارتے ہیں۔ ہو نہ ہو یا مقولہ کسی دیسی نے ہی پہلی بار کہا ہوگا  کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے ( یہاں ازل سے مراد تہتر برس ہیں ) یا پھر پاک چین دوستی شہد سے زیادہ میٹھی، ہمالیہ سے بھی بلند اور سمندر سے بھی گہری ہے۔  
مجھے شک ہے کہ کوئی چینی باہوش و حواس ایسی شاعری کر سکتا ہو۔
ہم تو ایسے جذباتی ہیں کہ فضل الرحمان اگر پچاس ہزار لوگ جمع کر لیں تو وہ ملین مارچ ہے اور عمران خان کے استقبال کو اگر ڈیڑھ ہزار لوگ اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچ جائیں تو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے۔
 ٹنڈو الہ یار کے زرعی علاقے سے گذرتے ہوئے ایک کسان نے مجھے ڈیڑھ پاؤ وزنی پیاز تھماتے ہوئے کہا سائیں پورے ورلڈ اور ایشیا میں ایسا پیاز نہیں ہوتا جیسا یہاں ہمارے ٹنڈے میں ہوتا ہے۔ میں نے پوچھا سائیں ایشیا آپ کے خیال میں کتنا بڑا ہے۔ فرمایا کہ سکھر سے بدین تک تو میں نے دیکھا ہے آگے آپ ناپ لو۔
ہمارے دوست بلند حسین  کا تعلق بہار کے علاقے سہرسا سے ہے۔ نیپال سے آنے والا  کوسی نامی ایک چھوٹا دریا سہرسا  کے قریب سے گذرتا ہے۔ بھائی بلند روزگار کے سلسلے میں ممبئی شفٹ ہو گئے۔ کچھ عرصے بعد ان کے ماموں سیر سپاٹے کی غرض سے سہرسا سے ممبئی تشریف لائے تو بھائی بلند حسین اپنے ماموں کو چوپاٹی لے گئے۔ زندگی میں پہلی بار سمندر دیکھتے ہی ماموں کے منہ سے بے ساختہ نکلا  ’ باپ رے باپ یہ ہوتا ہے سمندر ؟  یہ سالا تو اپنی کوسی ندی سے بھی بڑا ہے۔‘

وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان نے وزیراعلیٰ پنجاب کو شیر شاہ سوری قرار دیا تھا (فوٹو:سوشل میڈیا)

آپ نے دینی جلسوں، ریلیوں اور عرس مبارک وغیرہ کے پوسٹر کبھی دھیان سے دیکھے اور پڑھے ؟  صرف علامہ، مولانا، خطیب یا شعلہ بیان مقرر کہنے سے کہاں تسلی ہوتی ہے جب تک پوسٹر پر یہ نہ لکھا جائے کہ آج بعد نمازِ عشا خطیب الامت، غزالیِ دوراں، رازیِ وقت،  مفسرِ اعظم، عالمِ بے بدل، مفتیِ اعظم، مسلمانانِ پاکستان کی آبرو، مجاہدِ اکبر، حضرت مولانا  اللہ رکھا صاحب چنی گوٹھی مدظلہہ پرانا بس اڈہ سمہ سٹہ میں اہم ترین تاریخی خطاب سے سرفراز فرماتے ہوئے اہلِ ایمان کو گوہرِ نایابِ روحانی سے مالامال کریں گے۔ برادرانِ ملتِ اسلامیہ  سے پرزور درخواست ہے کہ فیوض و برکات سے بھرپرر اس بے مثال نورانی اجتماع میں شریک ہو کر ثوابِ دارین حاصل کریں ( مجال ہے کہ پوسٹر میں ایک سنٹی میٹر جگہ بھی خالی چھوٹ جائے۔‘
عصرِ حاضر میں اردو نے جو بہترین نقاد اور کالم نگار پیدا کیےان میں مشفق خواجہ بھی شامل ہیں۔ ایک بار انہوں نے سینئر شاعر جازب قریشی کی ایک کتاب کی  رونمائی کا اپنے کالم میں تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ  مہمانِ خصوصی ( ایک سابق گورنر )  نے صاحبِ تقریب کے تخلیقی اوصاف گنواتے ہوئے کہا  کہ میں صاحبِ کتاب کی نثر پڑھ کے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ زبان و بیان پر مثالی گرفت اور نثری چاشنی کے اعتبار سے دراصل جازب قریشی بلا مبالغہ دورِ حاضر کے محمد حسین آزاد ہیں۔ گویا  محمد حسین آزاد اپنے وقت کے جازب قریشی تھے۔

فیاض الحسن چوہان ایک بار پھر صوبہ پنجاب کے وزیر اطلاعات بنائے گئے ہیں (فوٹو:سوشل میڈیا)

کیا آپ کو پنجاب کے جواں سال و گرم خوں سابق وزیرِ اطلاعات  فیاض الحسن چوہان یاد ہیں ؟ انھیں اس برس فروری میں ہندو برادری اور سوشل میڈیا  کے دباؤ پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر معافی مانگنا پڑی تھی۔ کیونکہ انہوں نے جوشِ ایمانی سے بے قابو ہو کر کہہ دیا تھا کہ تم گائے کا موت پینے والو بنئیو، بتوں کی پوجا کرنے والو ہم علی کی تلوار ہیں وغیرہ وغیرہ۔ بعد ازاں چوہان صاحب نے کہا کہ ان کا طرزِ تخاطب مودی ٹولہ تھا پاکستانی ہندوؤں کی دل آزاری مقصود نہ تھی۔
اب نو ماہ بعد چوہان صاحب کو ایک بار پھر پنجاب کا وزیرِ اطلاعات بنا دیا گیا ہے۔ ابھی حلفِ وفاداری پڑھتے ہوئے منہ میں بننے والا جھاگ بیٹھا بھی نہ ہوگا کہ انہوں نے فرمایا کہ وزیرِ اعلی عثمان بزدار نے قلیل وقت میں عوامی فلاح و بہبود کے اتنے کام کیے ہیں اور اس قدر پیسہ بچایا ہے کہ ان کی ویسے ہی تعریف ہونی چاہیے جیسے شیر شاہ سوری  کی ہوتی ہے ۔
اگر میں فیاض الحسن چوہان کے اس جملے کو مشفق خواجہ کے زاویے سے دیکھوں تو پھر مجھے کہنے دیجئے کہ  شیرشاہ سوری  اپنے وقت کے عثمان بزدار تھے۔ 
مزید پڑھیں
چلیں چھوڑیں۔ اور کون سی بات معقول ہو رہی ہے جو اس  کو لے کر بیٹھ جائیں۔ بس اتنی سی فرمائش ہے کہ فیاض الحسن چوہان صاحب پہلی فرصت میں اردو بازار سے شیر شاہ سوری کی سوانح عمری کی دو جلدیں منگوا کے ایک خود پڑھیں اور دوسری بزدار صاحب کو پڑھ کے سنائیں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن  ہے سارا جہاں ہمارا
  • اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: