Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’امریکہ دیکھے کہ پاکستان کے ساتھ کیا کیا‘

ایلس ویلز نے پاکستان کو سی پیک میں شمولیت کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا کہا تھا (فوٹو:اے ایف پی)
پاکستان میں چینی سفارت خانے نے امریکی نائب سیکرٹری برائے جنوبی و وسطی ایشیاء ایلس ویلز کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سی پیک کے حوالے سے دیے گئے ایلس ویلز کے منفی بیان میں کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ انہوں نے اپنی نومبر 2019 والی تقریر کو ہی دہرایا ہے۔ ’اس بیان کو پاکستان اور چین دونوں مسترد کر چکے ہیں۔‘
بدھ کو جاری ہونے والے اس بیان میں چینی سفارت خانے کی طرف سے مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ ابھی تک سی پیک کے حوالے سے مکمل حقائق سے واقف نہیں اور اپنی بنائی ہوئی کہانی پر قائم ہے۔ ’ہمیں امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار ہونے پر خوشی ہے تاہم ہم پاک چین تعلقات اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں امریکی مداخلت کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ ایلس ویلز نے اپنے دورہ پاکستان کے موقعے پر منگل کو سی پیک کو ایک بار پھر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پاکستان سے اس میں شمولیت کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کو کہا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’سی پیک منصوبوں میں شفافیت نہیں، پاکستان کا قرض چینی فائنانسنگ کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔‘

سفارتخانے کے مطابق چین امن و ترقی کے لیے پاکستان کے ساتھ کام جاری رکھے گا (فوٹو: اے ایف پی)

چینی سفارت خانے نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سی پیک کے منصوبوں میں پاکستان اور چین باہمی مشاورت اور مشترکہ مفاد کی خاطر باہمی تعاون کے لیے پر عزم ہیں۔ ’ہم پاکستانی عوام کے مفادات کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔‘
سفارت خانے نے مزید کہا ہے کہ ’گذشتہ پانچ برس میں 32 منصوبوں کی قبل از وقت مکمل کیا گیا ہے جن سے نتائج حاصل ہو رہے ہیں۔ ان منصوبوں کی تکمیل سے مقامی ذرائع آمد و رفت میں بہتری آئی ہے اور روزگار کے 75 ہزار نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان کی جی ڈی پی میں دو فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘
بیان کے مطابق سی پیک پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی اور عوام کے معیار زندگی میں بہتری لانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ’سی پیک فائدہ مند ہے یا نہیں؟ اس کا جواب پاکستانی عوام کو دینا ہے نہ کہ امریکہ کو۔‘
اس ردعمل میں مزید وضاحت کی گئی ہے کہ چینی سفارت خانہ پاکستان کے متعلقہ احتسابی اداروں سے رابطے میں رہتا ہے دونوں ممالک کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سی پیک ایک شفاف منصوبہ ہے۔ ’امریکہ دنیا بھر میں پابندیوں کی چھڑی لے کر گھومتا ہے اور مختلف ممالک کو بلیک لسٹ کرتا رہتا ہے۔ امریکہ یہ سب اپنے معاشی مفادات کے لیے کرتا ہے۔‘

سفارتخانے کا کہنا ہے کہ پاکستان اور چین باہمی تعاون کے لیے پر عزم ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستانی سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا کل بیرونی قرضہ 110 ارب امریکی ڈالر ہے، عالمی مالیاتی فنڈ اور پیرس کلب سمیت عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کو قرضہ دینے والوں میں سر فہرست ہیں۔ ’سی پیک کے لیے کل قرضہ 5.8 ارب امریکی ڈالر ہے جو کہ پاکستان کے کل بیرونی قرضہ جات کا 5.3 فیصد ہے۔‘
سفارت خانے کے مطابق ’پاکستان یہ چینی قرضہ 20 سے 25 سال کے دورانیے میں صرف دو فیصد کی شرح سود کے ساتھ واپس کرے گا اور قرضے کی واپسی 2021 میں شروع ہو گی۔ پاکستان سالانہ 300 ملین امریکی ڈالرز قرضہ واپس کرے گا جو اس پر کبھی بھی بوجھ نہیں بنے گا۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم امریکہ کو مشورہ دینا چاہتے ہیں کہ پاک چین تعلقات پر الزامات لگانے سے قبل آپ کو اس چیز پر غور کرنا چاہیے کہ آپ نے پاکستان کے ساتھ کیا کیا ہے؟ کیا ایلس ویلز اپنے دورے کے دوران پاکستان کے لیے کوئی امداد، تجارت یا سرمایہ کاری لے کر آئیں؟ اگر امریکہ کو واقعی پاکستان کا خیال ہے تو اسے باہمی تعلق کو استوار کرنے کے لیے پاکستان کو فنڈز دینے چاہئیں۔‘
سفارت خانے کے مطابق ’چین پاکستان تعلقات مضبوط اور مستحکم ہیں۔ چین علاقائی امن و ترقی کو فروغ دینے کے لیے پاکستانی حکومت اور لوگوں کے ساتھ مل کر کام جاری رکھے گا۔‘

شیئر: