Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا وائرس: عالمی ادارہ صحت کی ایمرجنسی کا مطلب کیا ہے؟

عالمی ادارہ صحت کا اعلانِ ایمرجنسی کوئی قانون نہیں ہوتا جسے یکدم نافذ کر دیا جائے (فوٹو: اے ایف پی)
عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر عالمی ایمرجنسی کا اعلان کیا ہے جس کے بعد یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ اس اعلان کی وجہ کیا ہوتی ہے اور اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟
نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) میں خدمات سرانجام دینے والے ڈاکٹر محمد عرفان نے اس حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ کوئی بھی بیماری سامنے آنے کے بعد اگر اس کا پھیلاؤ غیر معمولی ہو تو عالمی ماہرین صحت کے پاس ایک معیار ہوتا ہے جو چار سوالوں پر مشتمل ہے۔ جن میں سے دو کے جواب مثبت آ جائیں تو ایمرجنسی کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔
سوالات یہ ہیں۔ کیا بیماری غیر معمولی یا نئی ہے؟ بیماری پھیل رہی ہے یا نہیں؟ کیا یہ دوسرے ممالک تک جا سکتی ہے؟ اور اس کے باعث ہلاکتوں کی شرح کیا ہے؟
اب اگر کورونا وائرس کے تناظر میں ان سوالات کو دیکھا جائے تو ان میں دو کیا چاروں ہی سوالات کا جواب اثبات میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایمرجنسی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
اعلان کے بعد کے مراحل
عالمی ادارہ صحت کا اعلانِ ایمرجنسی کوئی قانون نہیں ہوتا جسے یکدم نافذ کر دیا جائے بلکہ کچھ اقدامات ہوتے ہیں جن سے قبل یو این کے رکن ممالک کے وزرائے صحت کے سالانہ کانووکیشن کی کارروائی اور موجودہ حالات کی روشنی میں کچھ ہدایات تیار کی جاتی ہیں جو دوسرے ممالک کو جاری کر دی جاتی ہیں۔
اس کے بعد حکومتوں نے اپنے طور پر بیماری سے نمٹنے اور شہریوں کو بچانے کے لیے اقدامات کرنا ہوتے ہیں تاہم اس میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ان کی مدد بھی کی جاتی ہے۔

ماہرین کی رائے

عالمی ادارہ صحت کے سابق ڈائریکٹر جنرل (جو آج کل اس کی ایمرجنسی کمیٹی کے تجزیہ کار بھی ہیں) ڈاکٹر ڈیوڈ ایل ہیمین نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو اس حوالے سے بتایا کہ ہنگامی حالت صرف ایک رہنمائی کا عمل ہے۔ حکومتیں اور پرائیویٹ کمپنیاں اس کی پیروی کرنا چاہیں تو کر سکتی ہیں اور نہیں بھی کر سکتیں۔

موجودہ حالات میں پہلا مقصد وائرس کے پھیلاؤ کو سمجھنے کی کوشش کیا جانا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری جانب دنیا بھر کے سائنسی ماہرین نے عالمی ادارہ صحت کے اس قدم کو سراہا ہے کیونکہ صورت حال کافی سنگین ہو چکی ہے۔
ڈاکٹر تھامس آر فرائیڈ جو مختلف اداروں کے ساتھ عالمی ہنگامی صورت حال کے حوالے سے کام کر چکے ہیں، ڈبلیو ایچ او کے اعلان کے حوالے سے کہتے ہیں  کہ اس سے حکومتوں اور نجی سیکٹر کو عالمی قیادت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ایک موقع ملتا ہے۔
موجودہ حالات میں پہلا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ وائرس کیسے پھیل رہا ہے۔ اس بات کو جانچا جائے گا کہ ہسپتالوں اور کلینکس میں لائے جانے والے مریضوں کا تعلق کس عمر، جنس یا کسی مخصوص پیشے سے ہے۔ وہ کس حد تک بیمار ہیں، اور ان کی وجہ سے بیماری کس حد تک پھیلنے کا خطرہ ہے۔
لیکن پروفیسر امیر اتارن جو اٹاوا یونیورسٹی کے شعبہ امراض سے وابستہ ہیں، انہوں نے نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے ایک بار پھر ڈبلیو ایچ او کو لیٹ ہو جانے کا طعنہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قدم ’ناقابل معافی‘ حد تک دیر سے اٹھایا گیا ہے۔ کمیٹی ایک ہفتے تک یہ کہتی رہی کہ اس کے سائنسی ثبوت اس حد تک موجود نہیں کہ ہنگامی اعلان کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت سارس، ایبولا اور زکا وائرس کے وقت بھی ایسے ہی مسائل کا شکار ہوا تھا۔

ادارے کی جانب ہونے والے اقدامات

عالمی ادارہ صحت کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق جب بھی مجموعی صحت کے حوالے سے کوئی ایشو سامنے آتا ہے تو ادارے کی جانب سے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ اس بارے میں الرٹ جاری کیے جائیں، زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کی جائیں اور بیماری سے بچاؤ، علاج کے بارے میں اقدامات کو مؤثر طور پر ترتیب دیا جائے۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے موزوں ترین ماہرین کو متاثرہ جگہ پر بھیجا جاتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اس کے لیے اس کے پاس ’گلوبل الرٹ اینڈ رسپانس یونٹ‘ موجود ہے۔
سب سے پہلے اس ملک یا مقام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی حاصل کی جاتی ہے جہاں کوئی وائرس یا بیماری پھیلے یا پھوٹے۔
حساس معلومات کو فیصلہ سازوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ عملی کارروائیوں اور لاجسٹکس سپورٹ کے لیے بھی تیار ہوا جاتا ہے۔
کسی بھی تیزی سے پھیلنے والے وائرس کے سامنے آںے یا کوئی بیماری پھوٹنے کی صورت میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے امر کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ موزوں ترین ماہرین کو وہاں بھیجا جائے جہاں ان کی زیادہ ضرورت ہو۔
ہنگامی طور پر کچھ اقدامات کیے جاتے ہیں جن کا بنیادی مقصد کسی وبا کو روکنا، متاثر ہونے والوں کو علاج فراہم کرنا، عوام میں بیماری کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا، بیماری کی وجوہات جاننے کی کوشش کرنا اور ان کو ختم کرنا وغیرہ شامل ہے۔

شیئر: