Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’نوجوان دفاع کریں تو وزرا کی تنخواہیں و مراعات کس لیے‘

پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے بل کی مخالفت کی۔ (فوٹو:سینیٹ)
پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ میں چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور سپیکر و ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہیں بڑھانے کے بل اور سینیٹرز کی دلچسپ بحث کے بعد اس سے متعلق تحریک مسترد ہو گئی تاہم اب یہ گفتگو سماجی فورمز پر منتقل ہو چکی ہے۔
سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد نے تنخواہیں بڑھانے سے متعلق تحریک اور اس پر ہونے والی گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ایسا کرتے ہوئے وہ ملکی حالات اور مہنگائی سے لے کر منتخب نمائندوں کی ترجیحات تک پر سوال اٹھاتے رہے۔
وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے ایک بیان اور حکمراں جماعت پی ٹی آئی کے وزرا کی تنخواہوں اور مراعات کا ذکر کرتے ہوئے معصوم نامی صارف نے لکھا ’نوجوان تو سوشل میڈیا پر خان کا دفاع کر رہے ہیں لیکن درجنوں وزرا کروڑوں کی تنخواہیں اور مراعات کس لیے لے رہے ہیں۔‘

تنخواہیں بڑھانے کی تحریک کا جواز یہ پیش کیا گیا تھا کہ دیگر سرکاری و ریاستی اداروں کے سربراہوں کی تنخواہیں کہیں ذیادہ ہیں جب کہ ایوان بالا اور ایوان زیریں کے کسٹوڈینز کی تنخواہیں بہت کم ہیں۔ یہ جواز بھی سوشل میڈیا صارفین کو قائل نہ کر سکا۔
مظہر حسین بٹ نامی ہینڈل نے لکھا کہ ’عوام سے ووٹ لے کر ایوان میں پہنچنے والوں نے آج کا دن ضائع کردیا... عوام 2 وقت کی روٹی کے لیے روتی پھر رہی ہے، لیکن سینیٹ میں ارکان صرف اپنی تنخواہیں بڑھانے کے لیے پیش کیے گئے بل پر وقت ضائع کرتے رہے‘۔

 قادر خان شیرخانی نامی ہینڈل نے پشتونخواہ میپ کے سینیٹر عثمان کاکڑ کی تقریر کا ایک حصہ شیئر کرتے ہوئے اس پر #سپنی_سپنی_خبری (کھری کھری باتیں) کا ہیش ٹیگ لگایا۔ اس گفتگو میں رکن سینیٹ پاکستانی ٹیلی ویژن میزبانوں کی بھاری بھر کم تنخواہوں کا ذکر کرتے ہوئے پوچھ رہے تھے کہ 50 اور 60 لاکھ تنخواہیں لینے والے ہماری ڈیڑھ لاکھ پر بات کیوں کرتے ہیں؟

ٹیلی ویژن صحافت سے وابستہ ارشد وحید چوہدری نے تنخواہوں میں اضافے سے متعلق بل کے محرک سینیٹرز میں سے ایک نصیب اللہ بازئی کی گفتگو کو سوشل ٹائم لائنز کا حصہ بنایا۔ سینیٹر نصیب اللہ بازئی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ’ کچھ سینیٹرز یہاں پوائنٹ سکورنگ کے لیے مخالفت کر رہے ہیں لیکن اگر اس بل پہ خفیہ ووٹنگ کرائی جائے تو  سارے کے سارے 104 ووٹ حمایت میں نکلیں گے۔‘

تنخواہیں بڑھانے کو ملکی معیشت پر بوجھ ڈالنے کے مترادف سمجھنے والے سوشل میڈیا صارفین اس عمل کی مخالفت کرتے رہے تو بہت سے ایسے بھی تھے جو متبادل رائے پیش کرتے رہے۔ عثمان علی نامی ہینڈل نے لکھا کہ ’ تنخواہیں بڑھانے یا نہ بڑھانے سے ملکی معیشت پہ کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔۔ ملکی معیشت تب تباہ ہوتی ہے جب اربوں روپے کرپشن کے منی لانڈرنگ کر کے ملک سے باہر جائیدادیں بنائی جاتی ہیں۔ ۔ کاروبار کیے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔‘

گذشتہ روز سینیٹ میں تنخواہوں میں اضافے سے متعلق بل کی تحریک پیش کی گئی تو حمایت میں 16 اور مخالفت میں 29 ووٹ آئے تھے۔ مسلم لیگ ن کے دلاور خان اور یعقوب خان ناصر نے بل کے حق میں ووٹ دیا۔ پی کے میپ، نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام ف، اے این پی اور ایم کیو ایم نے بھی بل کی حمایت کی جبکہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے بل کی مخالفت کی تھی۔

شیئر: