Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بہاریوں کو ’فراری‘ کہنے پر ٹیکسٹ بک بورڈ کی معذرت

چیئرمین سندھ ٹیکسٹ بُک بورڈ نے کتاب میں ہونے والی غلطی کو تسلیم کیا (فائل فوٹو: روئٹرز)
منفی عوامی ردِعمل اور سیاسی جماعتوں کی تنقید کے بعد صوبہ سندھ کے ٹیکسٹ بُک بورڈ نے ساتویں جماعت کی معاشرتی علوم کی درسی کتاب میں مشرقی پاکستان سے آئے پناہ گزینوں کو ’فراری‘ کہنے پر معافی مانگ لی ہے۔
سندھ ٹیکسٹ بُک بورڈ نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اس کی فوری تصحیح کرنے کی بھی یقین دہانی کروائی ہے۔ تاہم جماعت اسلامی نے مطالبہ کیا ہے کہ دو مرتبہ ہجرت کرنے والے محبِ وطن لوگوں کو تضحیک آمیز القاب سے مخاطب کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
واضح رہے کہ صوبہ سندھ میں نئے تعلیمی سیشن 2021-2020 کے لیے شائع ہونے والی ساتویں جماعت کی معاشرتی علوم کی درسی کتاب میں کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں آباد ہونے والی بستی اور وہاں آباد کیے گئے لوگوں کا ذکر لسانی بنیادوں پر توہین آمیز انداز سے کیا گیا تھا۔
اس نئی کتاب میں ’ہجرت اور آبادکاری‘ کے عنوان سے شامل مضمون میں بتایا گیا تھا کہ اورنگی ٹاؤن میں بہاری پناہ گزینوں کی بستی 1980 میں آباد ہوئی اور 12 لاکھ بہاری بنگلہ دیش سے ’فرار‘ ہو کر یہاں آئے تھے۔
کتاب کے اس متن پر کراچی کے لوگوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا اور سوشل میڈیا کے ہر فورم پر سندھ حکومت اور صوبائی ٹیکسٹ بُک بورڈ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ ’اورنگی ٹاؤن میں مقیم افراد وہ محبِ وطن پاکستانی ہیں جنہوں نے دو مرتبہ ہجرت کی۔‘
انڈیا کی ریاست بہار‘ سے تعلق رکھنے والے افراد کو بہاری کہا جاتا ہے، تحریک پاکستان میں اس ریاست کے لوگوں کا کلیدی کردار تھا، اور قیام پاکستان کے بعد یہ لوگ ہجرت کر کے مشرقی پاکستان چلے گئے تھے۔
 جماعت اسلامی کے رہنما کا کہنا تھا کہ ’قیامِ پاکستان کے وقت بہار کے مسلمانوں نے مشرقی پاکستان کا رخ کیا، مگر جب 1971 میں ملک دولخت ہوا تو حب الوطنی کی پاداش میں ان لوگوں پر زمین تنگ کر دی گئی جس کی وجہ سے انہیں دوبارہ ہجرت کرنا پڑی۔ ’آج بھی وہاں کیمپوں میں رہائش پذیر محصورین حب الوطنی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔‘

سندھ ٹیکسٹ بُک بورڈ اس سے قبل بھی ایسی غلطیاں کرتا رہا ہے، فوٹو: روئٹر

سندھ ٹیکسٹ بُک بورڈ کے چیئرمین آغا سہیل احمد نے درسی کتاب میں ہونے والی غلطی کو تسلیم کیا اور وضاحت کی ہے کہ ’یہ کتاب آزمائشی بنیاد پر چھاپی گئی تھی جس کو درست کر لیا گیا ہے۔‘
’جب نئے تعلیمی سیشن کے لیے یہ کتاب مارکیٹ میں آئے گی تو اس میں کوئی ایسی عبارت شامل نہیں ہو گی جس سے کسی قوم، طبقے یا فرد کی دل آزاری ہوتی ہو۔‘
’اس حوالے سے ڈاکٹر محمد میمن کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی بنا دی گئی ہے جو اس کتاب کا بغور جائزہ لے رہی ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سبق کے مصنف نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معافی بھی مانگ لی ہے۔‘
اس حوالے سے جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ ’کمیٹی کو ذمہ داروں کا تعین بھی کرنا چاہیے کہ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے لسانی بنیادوں پر تفرقہ پھیلانے کی کوشش کی، ان کا نام سامنے لایا جائے اور انہیں مستقبل میں درس و تدریس کے فرائض سے دور رکھا جائے۔‘

جماعت اسلامی نے فراری لکھنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے، فوٹو: ٹوئٹر

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ سندھ ٹیکسٹ بُک بورڈ کی جانب سے شائع کردہ قریباً ہر درسی کتاب کے ایک سے زائد مصنف ہوتے ہیں اور یہ پہلا موقع نہیں کہ بورڈ کی جانب سے شائع کردہ درسی کتب پر تعصب کو فروغ دینے پر تنقید ہوئی ہو۔
اس سے پہلے 2016 میں سندھ ٹیکسٹ بُک بورڈ کی عمرانیات کی کتاب میں بلوچ قوم کو ’غیر مہذب‘ لکھا گیا تھا، اور یہ بتایا گیا تھا کہ ’بلوچ ریگستان میں رہتے ہیں اور قافلوں کو لُوٹتے ہیں۔‘
پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ میں یہ معاملہ اٹھائے جانے کے بعد اس پر بہت تنقید ہوئی تھی اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کو قائمہ کمیٹی میں بلا کر ان کی سرزنش بھی کی گئی تھی۔

شیئر: