Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پرائے شہر کی اس سڑک سے عشق

مال روڈ کی اپنی ایک شان ہے، اس کے چپے چپے سے شاہانہ پن ٹپکتا ہے۔
کراچی کے لوگ عجیب ہیں، دنیا گھوم آتے ہیں مگر پڑوس میں حیدرآباد سے واقف نہیں، یہی سوچ کر ہم دوستوں نے چند سال پہلے حیدرآباد کا رخ کیا کہ دیکھیں تو کیا بلا ہے۔ شہر برا نہیں، اور اس آس میں جی رہا ہے کہ ایک دن بڑا ہو کر کراچی بنے گا۔
واپس آ کر استاد صاحب کو سفر کی رُوداد سنائی تو پوچھنے لگے کہ حیدرآباد میں میری محبوبہ کیسی ہے؟ میں نے حیرانی سے پوچھا تو بتایا کہ وہاں ’تلک چاڑی‘ سڑک کا پوچھ رہے ہیں۔ مجھے اچنبھا ہوا کہ بھلا کسی کو سڑک سے پیار کیسے ہو سکتا ہے؟ 

 

اس مکالمے کے چند ماہ بعد پہلی بار لاہور آنا ہوا۔ کراچی کی نسبت لاہور نہایت صاف ستھرا اور ہرا بھرا لگا۔ اسی سوچ میں تھا کہ گاڑی ایسی سڑک پر آ گئی جس کے اطراف گھنے درخت قطار در قطار سایہ فگن تھے، سڑک کے بیچ گیندے کے پھول رنگ بکھیر رہے تھے، سڑک کنارے کیاری میں گلاب کی رنگ برنگی کلیاں چٹک رہی تھیں اور درختوں کی ٹہنیوں سے آویزاں گملوں میں بھی رنگ برنگے پھول جلوہ افروز تھے۔
فرطِ اشتیاق میں ڈرائیور سے دریافت کیا کہ یہ کون سی جگہ ہے؟ بتایا مال روڈ ہے۔ یہ وہ موقع تھا جب سب سمجھ آ  گیا کہ ’بھلا کسی کو سڑک سے پیار کیسے ہو سکتا ہے‘، کیونکہ مجھے ہو چکا تھا پہلی نظر اور ملاقات میں۔
اس بات کو چار سال بیت چکے ہیں، غمِ عشق نہ بھی ہو تو غم روزگار مجھے سال میں ایک آدھ بار کراچی سے لاہور کھینچ لاتا ہے۔ واپس جا کے جب بھی میں لاہور کی آسودگی اور خوب صورتی بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو باور کروایا جاتا ہے کہ ’کراچی کتنا غریب پرور شہر ہے‘ اور ’لاہور تو کراچی کے پیسے پر پل کر جوان ہوا ہے۔‘ مگر مجھے ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں، مجھے تو بس مال روڈ سے عشق ہے، بے پناہ اور والہانہ۔

کراچی والوں کے لیے لاہور بس مینارِ پاکستان اور بادشاہی مسجد سے متصل احاطے کا نام ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

میں نے سردیوں کی راتوں میں الحمرا سے ایچی سن کالج تک مٹرگشت کیا ہے، خزاں کی دھیمی بارشوں میں مال روڈ پر ’لانگ ڈرائیو‘ کرتے ’بھیگا بھیگا سا یہ دسمبر‘ سنا ہے، حتیٰ کہ اس بل کھاتی سڑک کے موڑ پر گھنٹوں بیٹھ کر آتی جاتی گاڑیوں تک کو گِنا ہے۔ اِک عجب سی وحشت ہے جو اس سڑک پر سفر کے دوران مجھے گرفت میں لے لیتی ہے۔
مال روڈ کی اپنی ایک شان ہے، اس کے چپے چپے سے شاہانہ پن ٹپکتا ہے۔ لاہور کی اینگلو انڈین تاریخ میں مال روڈ کو جدا گانہ پہچان حاصل ہے۔ اس روڈ پر واقع چیدہ چیدہ مقامات میں گورنر ہاؤس، ایچی سن کالج، فائیو سٹار ہوٹل، قائد اعظم لائبریری، باغِ جناح اور کارپوریٹ دفاتر شامل ہیں۔
 باغ جناح شہر کے کسی اور حصے میں ہوتا تو واللہ مجھے اس کا علم بھی نہ ہوتا، لیکن اس کی خوش نصیبی کہ مال روڈ پر واقع ہے، تبھی میری میزبانی کا شرف ملتا رہتا ہے۔
لاہور کی چمن آئس کریم دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ضرور ہو گی، لیکن مجھے اس کی شہرت سے غرض نہیں، میرے لیے چمن آئس کریم کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ مال روڈ پر ہے۔ آئس کریم کھانے جانے کے لیے مال روڈ پر لانگ ڈرائیو کا سرور حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے، میری متاعِ حیات یہی ہے۔ کسی کو رات گئے آئس کریم کھانے جانا ہو، میں لے جانے کو حاضر، پھر بے شک آپ مجھے آئس کریم بھی نہ کھلائیں، ساڈا یار نو تکنا وی حج ہووئے۔

کہا جاتا ہے کہ کراچی کے لوگ لاہور سے واقف نہیں، اور لاہور والے کراچی سے (فوٹو: سوشل میڈیا)

کراچی میں کسی دل جلے نے یہ روداد سن کر دریافت کیا کہ اماں یہاں کی سڑکیں بھی خاصی ٹھنڈی اور بل کھاتی ہیں، کچھ عنایت ان پہ بھی کر دیا کرو۔ جواباً وضاحت کی کہ قبلہ اگر راہزنوں سے موبائل فون، بٹوا اور عزت محفوظ ہونے کی ضمانت آپ دیں تو کراچی کی سنسان سڑکوں پر رات گئے چہل قدمی کو میں تیار ہوں۔ یہ سننا تھا کہ حضرت تِلملا گئے اور کہنے لگے کہ تمہیں تو کراچی سے بلاوجہ کا بغض ہے۔
کراچی میں بسنے والے تمام افراد کو متفقہ طور پر یہی لگتا ہے کہ شہرِ قائد کے تمام مسائل کی جڑ پنجاب اور بالواسطہ لاہور ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے پاس اس گمان کو ثابت کرنے لیے دلائل بھی ہوں، مگر عمومی طور کراچی کے لوگ لاہور سے واقف نہیں، اور لاہور والے کراچی سے۔ دونوں جانب اس صورت حال کو جوں کا توں رکھنے کے لیے خاص محنت کی جاتی رہتی ہے۔
جیسے کسی لاہوری کو کراچی میں ساحلِ سمندر اور مزارِ قائد کے علاوہ کچھ سجھائی نہیں دیتا، ویسے ہی ہم کراچی والوں کے لیے لاہور بس مینارِ پاکستان اور بادشاہی مسجد سے متصل احاطے کا نام ہے۔
زندہ دلی کا دعویٰ تو دونوں شہروں کے لوگ کرتے ہیں مگر زندہ لوگوں کی ایک دوسرے کی زندگی میں کوئی جگہ نہیں۔
ہمارے سفر کرنے کا ڈھب ایسا عجیب ہے کہ اس میں زندہ لوگوں کی کوئی جگہ نہیں، ہمارا المیہ ہے کہ کسی بھی شہر کو اس کے حال سے نہیں اس کے ماضی سے پہچانتے ہیں۔ ہم تو جیتے جی کسی انسان کو بھی نہیں پوچھتے، البتہ جب وہ دارِ فانی سے کوچ کر جاتا ہے تو اس کی یاد میں تعزیتی ریفرنس منعقد کر کے کہتے ہیں’آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے۔‘
خیر میں کون ہوتا ہوں اس بابت کچھ کہنے والا، مجھے تو خود پرائے شہر کی ایک سڑک سے عشق ہو چکا ہے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: