Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہر لاہور کی شاہی سواری

تانگہ صدیوں تک انسان کی ترجیحی سواری رہا ہے، چاہے خطہ کوئی بھی ہو۔ جنوبی ایشیا میں خاص طور پر پاکستان اور انڈیا میں اکیسویں صدی کے آغاز تک تانگے کو آمدورفت میں ایک مقام حاصل رہا ہے لیکن اکیسویں صدی کی پہلی ہی دہائی تیز ترین ثابت ہوئی جہاں بہت کچھ بدلا وہیں تانگہ بھی معدوم ہوتا گیا۔
جدید ذرائع آمد و رفت نے تانگے اور اس قبیل کی تمام سواریوں کو عجوبہ بنا دیا۔ تانگے کے سڑکوں سے معدوم ہونے کا احساس لاہور کے ایک نوجوان عادل لاہوری کو بہت شدت سے تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنی تمام تر توجہ تانگہ کلچر کو کسی نہ کسی شکل میں زندہ رکھنے کے لیے لگا دی۔
عادل جاوید اپنے نام کے ساتھ لاہوری کا لاحقہ اس شہر کی محبت میں لگائے ہوئے ہیں۔ وہ اندرون لاہور پیدا ہوئے اور پرانے لاہور کے چپے چپے سے واقف ہیں اپنی اسی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے ایک چھوٹی سی سیاحتی کمپنی بنائی اور ایک تانگے کو سجا کر اسی پر سیاحوں کو لاہور کی سیر کروانا شروع کی۔

عادل لاہوری بتاتے ہیں کہ اس کا مقصد صرف اور صرف لاہور کے کلچر کو زندہ رکھنا ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ  ’تانگہ لینے کا مقصد یا اس کلچر کو بچانے کا مقصد یہ تھا کہ آج کل کے ماڈرن دور میں کوئی اپنی اپنی گاڑیوں میں سفر کرتا ہے، شہر کو دیکھتا ہے، میرا مقصد اس سے مختلف تھا اور وہ یہ تھا کہ میں تانگے کے اوپر ثقافتی لباس ہوں جو لاہور کی پہچان ہیں وہ سیاحوں کو پہنا کر لاہور کی ان پرانی گلیوں میں جاؤں جہاں پر چھجے چوبارے ہیں اور لاہور کے لوگ سیاحوں خوش آمدید کہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’تو میں نے تانگہ لیا اسے پینٹ کروایا اس پر ٹرک آرٹ کیا۔ ساتھ ساتھ میں نے کوچوانوں کو بھرتی کیا۔ کوچوانوں کا اپنا ایک کلچر ہے جب گلیوں میں تانگہ گزرتا تھا تو یہی تاثر جاتا تھا کہ کوئی امیر یا شاہی فیملی جا رہی ہے اسی مناسبت سے میں نے اس پراجیکٹ کا نام بھی لاہور شاہی سواری رکھا ہے۔
عادل لاہوری بتاتے ہیں کہ اس کا مقصد صرف اور صرف لاہور کے کلچر کو زندہ رکھنا تھا کہ دنیا بھر سے لوگ آئیں اور ہماری ثقافت سے مانوس ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ شروع میں تو زیادہ تشہیر نہیں ہوئی لیکن بعد میں انٹرنیٹ کی مدد سے انہوں نے ایک بلاگ لکھا اور اس میں اندرون لاہور کے اس مختلف تانگہ ٹوور کا ایک خاکہ پیش کیا اور تصاویر بھی لگائیں جس کے بعد بہت سے لوگوں نے رابطہ کیا جس میں خاص طور پر پاکستان میں موجود مختلف ملکوں کے سفارتخانوں نے رابطے کیے اور ان کے مہمانوں کو شاہی سواری پر لاہور دیکھایا۔

ایک سال سے مال روڈ جیسی بڑی سڑک پر تانگہ لانے پر مکمل پابندی عائد ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’لگ بھگ تین ہزار ٹوور ہم لوگ ارینج کرواچکے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس پراجیکٹ میں غیر ملکیوں نے بہت دلچسپی دکھائی یہی وجہ تھی کہ میں نے اس کا ماڈل ہی بدل دیا اور غیر ملکیوں کو سامنے رکھ کے ہی تیاری کرتا۔ ان کے لیے لاچے اور دھوتیاں خواتین کے لیے پراندے اور مہندی لگوانے کا انتظام کرتا اور جب تانگوں کا کانوائے اندرون میں جاتا تو لوگ پھول پھینکتے اس کے لیے میں باقاعدہ لوگوں کو قائل کرتا تھا کہ وہ اس سرگرمی کا حصہ بنیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ایک دفعہ میکسیکو کی خاتون سفارت کار جو آجکل انڈیا میں ہیں، خاص طور پر تانگے پر سیر کرنے آئیں اور بھی بہت سے سفارت کار آئے جن کو لاہور دکھایا۔
اگر یہ سب کچھ اتنا اچھا چل رہا تھا تو پھر اب اس میں ایسی کیا مشکل آ گئی کہ آپ کو لگ رہا ہے کہ شاید یہ مزید ایسے نہ چل پائے؟ اس سوال کے جواب میں عادل لاہوری کا کہنا تھا کہ ’ایک سال سے مال روڈ جیسی بڑی سڑک پر تانگہ لانے پر مکمل پابندی عائد ہے۔ جب سے یہ نئی حکومت آئی ہے اس میں مزید سختی آ گئی ہے۔ اب مال روڈ پر ہی آپ تانگہ نہیں لا سکتے تو آپ لاہور کا پورا مزہ نہیں لے سکتے۔ یہ محض سیر نہیں ہوتی یہ پورا علمی دورہ بھی ہوتا ہے آپ کو مغلیہ دور سے برطانوی راج اور پھر درمیان میں سکھوں کا دور حکومت ہندو تہذیب یہ سب کچھ آثار قدیمہ اور عمارتوں میں بکھرا ہوا ہے۔
عادل لاہوری سے پتا چلا کہ میجر روٹ تانگہ سواری کے لئے بند ہونے کی وجہ سے ان کی شاہی سواری کی وہ تان بان نہیں رہی اور جس کام کو وہ دس سال سے کسی نا کسی شکل میں جاری رکھے ہوئے تھے اب اس میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’حکومتی سرپرستی بڑی ضروری ہوتی ہے کلچر کو پروموٹ کرنے کے لیے، اب جب سفارت کار آتے ہیں یہی سٹرکیں ہوتی ہیں آگے پیچھے پروٹوکول ہوتا ہے اور نوابوں کی طرح انہی سٹرکوں سے گزرتے ہیں لیکن جب ایسا نہیں ہوتا روٹین مقامی لوگوں کو سیر کروانا ہوتی ہے تو ایک ٹریفک وارڈن روک لیتا اور شرمساری محسوس ہوتی ہے جیسے ہم کوئی غلط کام کر رہے ہیں۔

’ہم اپنے ٹوررز کا وقت علی الصبح رکھتے ہیں جب ٹریفک بھی لاہور کی سڑکوں پر نہیں ہوتی۔‘ فوٹو: اردو نیوز

عادل لاہور نے بتایا کہ جب ان کا تانگہ کسی ٹوور پر نکلتا ہے تو صفائی کے لحاظ سے تمام جدید اصول اپنائے جاتے ہیں لیکن ضلعی انتظامیہ کبھی اس بات پر آئی ہی نہیں کہ اگر ان کے کوئی اسٹینڈرڈز ہیں تو وہ بھی پورے کیے جا سکیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اپنے ٹوررز کا وقت علی الصبح رکھتے ہیں جب ٹریفک بھی لاہور کی سڑکوں پر نہیں ہوتی۔ سو ٹریفک کی روانی میں بھی خلل کا سوال پیدا نہیں پوتا۔ لاہور کے سابقہ ڈی سی او کو ہم نے شاہی سواری کا پورا ٹوور دیا تھا جس کے بعد انہوں نے اجازت دی کہ اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اب ساری انتظامیہ بدل چکی ہے اور صفر سے کام کرنا پڑ رہا ہے۔
عادل لاہوری نے بتایا کہ وہ اس سرگرمی سے کوئی بہت زیادہ پیسے نہیں کما رہے۔ ’میرا صرف ایک ہی مشن ہے کہ کسی طرح سے یہ کلچر بچ جائے۔ جب آپ کسی کلچر کو توڑتے ہیں تو بہت سی اقدار بھی ساتھ دم توڑ جاتی ہیں۔ مجھے یاد ہے جب ہم نے اس کام کو شروع کیا تو باقاعدہ ڈھول بھی ساتھ ہوتا تھا ایک ہماری گھوڑی تھی جو تانگے میں جتی ہوئی ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتی تھی تو یہ ہمارا کلچر صدیوں سے رہا ہے۔ اس کو جدا کریں گے یا ختم کریں گے کلچر ختم ہو گا۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: