Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شاہی باورچی خانہ:جہاں بنیں گے ہم مہمان

٭٭٭ نوشین نقوی۔ لاہور ٭٭٭

 

لاہو ر کاتاریخی شاہی قلعہ مغل بادشاہوں کے جاہ و جلال اور عظمتِ رفتہ کے ساتھ ساتھ فن و ثقافت کی بہت سی روایات کا امین بھی ہے۔اسی بلندو بالا اور شاہکار عمارت میں موجود شاہی باورچی خانہ عوام کے لیے کھولنے کی تیاریاں اب آخری مراحل میں ہیں۔
وہ شاہی باورچی خانہ جہاں کبھی راجاﺅں، مہاراجاﺅں، بادشاہوں، شاہی مہمانوں اور محل کے مکینوں کے لیے پکوان بنائے جاتے تھے ۔ جن راہداریوں میں چلتے ہوئے آج بھی بادشاہت کا جاہ جلال محسوس ہوتا ہے ، وہ دروازے اب عام آدمی کے لیے کھولے جارہے ہیں ۔ 
لاہور والڈ سٹی اتھارٹی کے زیر اہتمام شاہی قلعے میں موجود شاہی باورچی خانے کوآئندہ عید الفطر تک ریستوران کے طور پر بحال کیا جا رہا ہے۔
ڈائریکٹر کنزرویشن اینڈپلاننگ لاہوروالڈ سٹی اتھارٹی نجم الثاقب نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا مقصد شاہی قلعہ کی خوبصورتی اور پائیداری میں اضافہ کرنا ہے، ہم نے کہیں بھی اس بات کو نظر انداز نہیں کیاکہ قلعے کی تزئین وآرائش میں روایت کو پیچھے چھوڑ دیں ۔ عوام اس قلعے کی روایات کے ساتھ جڑے ہیں اور وہ یہاںآ کرچشمِ تصور سے دیکھتے ہیں کہ بادشاہوں کی زندگی کیسی شاندار تھی ۔ ۔ ۔ ہم اس تصوراتی سچائی کو حقیقت کے قریب لانا چاہتے ہیں۔‘
شاہی قلعے کے جنوب مغرب کی طرف پھیلے وسیع علاقہ میں عہدِ مغلیہ کا شاہی باورچی خانہ قائم ہے۔ یہ جگہ لوہ کے مندر کی پچھلی جانب اور مثمن دروازہ کی جنوبی طرف واقع ہے۔ یہ باورچی خانہ ایک بہت بڑے ہال اور چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل ہے جس کے کئی دروازے ہےں۔ اس میں بنے انواع اقسام کے کھانے شاہی دسترخوان کی زینت بنتے تھے۔
برطانوی عہد میں اس شاہی باورچی خانہ کی حیثیت کو ختم کرکے یہاں پولیس کی بیرکیں بنادی گئیں اور اِسے جیل میں تبدیل کردیا گیا۔ کچھ عرصہ تک یہ جیل زیر استعمال رہی اور کئی نامور سیاسی قیدیوں کے لیے اذیت خانہ بنی۔
ڈائریکٹر کنزرویشن اینڈپلاننگ لاہوروالڈ سٹی اتھارٹی نجم الثاقب کہتے ہیں کہ ’جب اس جگہ کو بطور جیل استعمال کیا گیا تویہ مزید خستہ حال ہوتی گئی ۔اب تو طویل مدت سے کوئی اس طرف آتا بھی نہیں تھا۔ لیکن ہم نے اس جگہ کی صفائی ستھرائی کے بعد اس قابل بنا دیا ہے کہ ہمارے ذہنوں میں شاہی باورچی خانہ کی ایک شکل بن گئی ہے۔ جو دو ماہ تک عملی صورت میں سب کے سامنے ہوگی۔ یہاں فیملیز شاہی کھانوں سے لطف اندوز ہوںگی۔ شاہانہ انداز ، شاہی موسیقی اور شاہی کھانے یہ اس جگہ کی پہچان بن جائیں گے، پاکستان میں ٹورازم کی ترویج کے لیے یہ بہترین منصوبہ ثابت ہوگا۔‘
شاہی قلعے میں گلگت سے آئے ہوئے عظیم داد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ ہم اس خیال سے بہت پر جوش ہیں کہ یہ شاہی باورچی خانہ جس میں مغل بادشاہوں کے لیے پکوان بنے ہیں اب وہاں ہم بھی فیملی کے ساتھ بیٹھ کے کھانا کھا سکیں گے۔ خاص طور پر یہ سوچ کر ہی خوشی محسوس ہوتی ہے کہ رات کے وقت اس عظیم الشان شاہی قلعے میں عام لوگ اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر شاہی کھانے کھائیں گے۔ یہ سیاحوں کے لیے خوش کن ہوگا۔‘
 پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہورکے شمال مغربی کونے میں مینارِ پاکستان، بادشاہی مسجد، نیشنل ہسٹری میوزیم اور دریائے راوی کے پہلو میں واقع شاہی قلعہ دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ خاص طور پر گریٹر اقبال پارک کی تعمیر کے بعد شاہی قلعہ کی خوبصورتی میں چار چاند لگ گئے ہےںاور جو عمارات خستہ حالی کا شکار نظر آتی تھی اب وہاں بلندو بالا پیڑ،خوبصورت لان ،سجائی گئی راہداریاں اور مرمت شدہ حصے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
ایک طرف شاہی باورچی خانہ کی تزئین و آرائش جاری ہے تو دوسری طرف مختلف حصوں کی کھدائی کئی تاریخی رازوں سے پردہ بھی اٹھا رہی ہے۔
شاہی قلعہ کی تعمیر کے بارے میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا ممکن نہیں کیونکہ اس کا ذکرمغل شہنشاہوںسے سینکڑوں سال پہلے بھی تاریخی کتابوں اور حوالوں میں موجود ہے۔اس کی ازسرِنو تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم (1605-1556) نے کروائی جبکہ اکبر کے بعد آنے والے بادشاہ بھی اپنی پسند کے مطابق شاہی قلعہ کی چال ڈھال اور خوبصورتی میں اضافہ کرتے رہے۔
 محکمہ آثارِ قدیمہ کی سنہ 1959 میں کی گئی کھدائی کے دوران ملنے والے نوادرات اوراثرات سے شاہی قلعے کے تاریخی حوالے اس کی تعمیر سنہ1025 سے بھی بہت پہلے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ تاریخ دانوں کو محمود غزنوی کے لاہور فتح کرنے سے بھی پہلے تقریباً سنہ 1021 میں یہاں آبادی کے اثرات ملے ہیں۔ منگول،سلطان غیاث الدین بلبن،امیر تیمور،سلطان مبارک شاہ سید،کابل کے شیخ علی اور پھر بادشاہ جلال الدین اکبر شاہی قلعہ میں مقیم رہے کبھی کسی بادشاہ نے برباد کیا تو کسی دوسرے نے تعمیر کر دیا۔
سنہ 1566 میں مغل فرمانروا اکبر نے پکی اینٹوں کی کاریگری سے شاہی قلعے کی شاندار تعمیر کروائی جو آج بھی موجود ہے۔یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ وہ سیاح جن کے دل شاہی قلعہ کی روایات سے جڑے ہیں وہ کسی ایسی تبدیلی کے خواہش مندہیں یا نہیں جس سے شاہی باورچی خانے کی صورت یکسربدل جائے۔
شاہی قلعے کی سیر کوآئے دو بھائیوں تیمور اور نعمان نے ریسٹورنٹ کی تعمیر کو سراہا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ شاہی قلعے کی اصل خوبصورتی اس کی اوریجنل طرز تعمیر کے ساتھ جڑی ہے ،اگر اس بات کا خیال رکھا جاتاہے کہ تزئین آرائش کرتے وقت اصل خوبصورتی کا رنگ ماند نہ پڑے تو یہ بہترین پراجیکٹ ہوگا۔
لاہور والڈ سٹی اتھارٹی کے مطابق تعمیرو تزئین کا 99فیصدکام مکمل ہو چکا ہے اور ریسٹورنٹ کو عید الفطر پر عوام کے لیے کھول دیا جائے گا۔جس میں مہمانوں کی شاہی ماحول اور شاہی پکوانوں سے تواضع کی جائے گی۔
لاہور سمیت پاکستان اور دنیا بھر سے آنے والے سیاح اس تاریخی ورثے کی تزئین آرائش کے منصوبے کے لیے پرجوش ہیں۔ اب یہ فیصلہ تو آنے والے وقت ہی کرے گا کہ شاہی کچن کے مہمان اس ماحول میں روایتی شاہی جھلک کو محسوس کریں گے یا نہیں؟ 
 

شیئر: