Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 ہزاروں ڈاکٹرز کورونا سے نہیں لائسنس نہ ملنے سے پریشان

کچھ ڈاکٹر اپنی خدمات پیش نہ کر سکنے پر افسردہ ہیں۔ ۔ فوٹو اے ایف پی
پاکستان میں ڈاکٹرز کی رجسٹریشن،لائسنس کے اجراء اور ریگولیٹ کرنے والا ادارہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کے غیر فعال ہونے کی وجہ سے ہزاروں نئے گریجویٹس کی رجسٹریشن نہیں ہو رہی ہے۔ ایسے میں نہ صرف نوجوان ڈاکٹر پریشان ہیں بلکہ کچھ ایسے بھی ہیں جو کورونا سے درپیش صورتحال میں اپنی خدمات پیش نہ کر سکنے پر افسردہ ہیں۔ 
ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر وقاص جاوید نے چین سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کی ہے اور وہ ستمبر 2019 میں ہاؤس جاب مکمل کر چکے ہیں لیکن پی ایم ڈی سی کے غیر فعال ہونے سے انہیں رجسٹر میڈیکل پریکٹیشنر (آر ایم پی) سرٹیفیکٹ نہیں ملا۔ 
ڈاکٹر وقاص جاوید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے جنوری 2020 میں آر ایم پی سرٹیفیکیٹ کے لیے فارم جمع کروایا لیکن چار ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود سرٹیفیکٹ نہیں ملا۔
عمومی طور پر پی ایم ڈی سی پریکٹشنز لائسنس پندرہ روز میں جاری کر دیتا ہے۔ 
ڈاکٹر وقاص کہتے ہیں کہ پی ایم ڈی سی غیر فعال ہونے سے ان جیسے ہزاروں نوجوانوں کا کیرئیر تو متاثر ہو رہا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس عالمی وبا میں اپنی رضا کارانہ خدمات بھی پیش نہیں کر سکتے۔ 
’سرکاری نوکری کے لیے تو درخواست نہیں دے سکتے کیونکہ لائسنس ہونا ضروری ہے اور پرائیوٹ سیکٹر میں بھی لائسنس نہ ہونے کہ وجہ سے موقع نہیں ملتا۔ عالمی وباء کورونا سے ضلعی سطح پر ڈاکٹرز کو رضاکارانہ خدمات پیش کرنے کا کہا گیا تو میں اپنی خدمات نہیں پیش کر سکا کیونکہ جب پریکٹس کرنے کا لائسنس ہی نہیں تو رضاکارانہ خدمات کے لیے خود کو کیسے پیش کروں۔ اس بات کا افسوس ہمیشہ رہے گا۔‘

پی ایم ڈی سی کے پاس 15 ہزار نئے ڈاکٹرز کی رجسٹریشن کے لیے درخواستیں موجود ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

کراچی کے بقائی میڈیکل یونیورسٹی کے گریجوٹ مسلم واردک بھی پی ایم ڈی سی اور پی ایم سی کی آپس کی لڑائی سے متاثر ہو رہے ہیں۔ 
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے میڈیکل گریجویٹ مسلم واردک کہتے ہیں کہ رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے کسی امتحان میں حصہ لے سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی نوکری کر سک رہے ہیں۔
'جنوری 2019 میں گریجویشن مکمل کی جبکہ جولائی میں پروژنل رجسٹریشن کے لیے درخواست دی لیکن تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے نوکری تو دور کسی امتحان میں بھی حصہ نہیں لے سکتا اور اب گھر میں بے روزگار بیٹھا ہوں۔'

پندرہ ہزار سے زائد ڈاکٹرز رجسٹریشن کے منتظر

پی ایم ڈی سی میں رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کی ایک عہدیدار نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس وقت 15 ہزار نئے ڈاکٹرز کی رجسٹریشن کی درخواستیں اور 25 ہزار کے قریب لائسنس کی تجدید اور ہاؤس جاب کے بعد پریکٹیشنر لائسنس کے لیے درخواستیں موجود ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ 'گزشتہ چھ ماہ سے ادارہ غیر فعال رہا جس کی وجہ سے ڈاکٹرز کو سرٹیفیکیٹ جاری نہیں کیے جا سکے اور تمام درخواستوں کو نمٹانے میں کم از کم ایک ماہ سے زائد کا عرصہ لگ سکتا ہے۔' 
پاکستان میڈیکل ایسوی ایشن کے سیکرٹری ڈاکٹر قیصر سجاد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا 'اتنی بڑی تعداد میں ڈاکٹرز کی رجسٹریشن نہ ہونا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے خاص کر ایسی صورتحال میں جب ملک میں ہیلتھ ایمرجنسی ہے۔' 
ڈاکٹر سجاد قیصر کے مطابق عالمی وباء کے پیش نظر جہاں ڈاکٹرز کو کٹس کی کمی ہے وہی ہمیں دیگر شعبوں میں ڈاکٹرز کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ 'ایسے ڈاکٹرز جو کورونا کے مریضوں کو دیکھنے کے لیے سپیشلائیزڈ نہیں ہیں لیکن ان کو کورونا کے مریضوں کو دیکھنا پڑ رہا ہے اور وہ اپنے شعبے میں پریکٹس نہیں کر پا رہے۔' 
داکٹر سجاد قیصر کہتے ہیں کہ نیشنل ہیلتھ ایمرجنسی میں نوجوان ڈاکٹرز جو کہ بڑی تعداد میں رجسٹریشن کے منتظر ہیں اس بحران کی کیفیت میں کافی مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے صدارتی آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ فوٹو اے ایف پی

پاکستان میڈیکل کونسل کا معاملہ ہے کیا ؟

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو وفاقی حکومت نے 21  اکتوبر 2019 کو صدارتی آرڈیننس کو زریعے تحلیل کرتے ہوئے پاکستان میڈیکل کونسل کے نام سے ریگولیٹری باڈی تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا۔ 
تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے 11 فروری کو وفاقی حکومت کے صدارتی آرڈیننس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پی ایم ڈی سی کو فعال کرنے کا حکم دے دیا۔ 
وفاقی حکومت نے 11 فروری کے اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایت پر عملدرآمد نہیں کیا اور پی ایم ڈی سی کے دفتر کو سیل کر دیا گیا۔ پی ایم ڈی سی ملازمین نے عدالت سے دوبارہ رجوع کیا جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر ادارے کو فعال کرنے کا حکم دیا۔ عدالت کے حکم کے بعد پی ایم ڈی سی کے ملازمین کو 7 اپریل کو دفتر جانے کی اجازت ملی۔

شیئر: