Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'کورونا وائرس لے کر گھر واپس نہیں جانا چاہتے'

بلوچستان میں کل 169 افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے(فوٹو: اے ایف پی)
کوئٹہ میں 10 ایسے ڈاکٹروں میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جو نہ تو کورونا کے مریضوں کا علاج کر رہے تھے اور نہ ہی ان کی کسی قرنطینہ مرکز پر ڈیوٹی تھی۔
ڈاکٹر تنظیموں کا کہنا ہے کہ بیشتر ڈاکٹروں کو عام مریضوں کا علاج کرتے ہوئے یہ وائرس لگا ہے اور اب شہر کے سرکاری و نجی ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹر اور طبی عملے کے ارکان خوف کا شکار ہوکر گھروں کو جانے سے کترا رہے ہیں۔
ڈاکٹر اپنے بیوی بچوں اور خاندان کے افراد کو محفوظ رکھنے کی خاطر ہسپتال کے وارڈ اور ہاسٹل میں رہنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
سول ہسپتال کوئٹہ کے میڈیسن یونٹ تھری میں بطور میڈیکل آفیسر کام کرنے والے 28 سالہ ڈاکٹر قیصر پانیزئی میں تین روز قبل کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔ ان کے مطابق جس وارڈ میں وہ کام کرتے ہیں وہاں کورونا کا کوئی مریض داخل نہیں، صرف عام بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو لایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر قیصر کو خود بھی معلوم نہیں کہ انہیں یہ وائرس کہاں سے لگا۔ امکان یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کسی مریض یا پھر ساتھی ڈاکٹر سے بیماری منتقل ہوئی ہے۔
ڈاکٹر قیصر کے ساتھ کام کرنے والے ڈاکٹر عمر ناصر اور ڈاکٹر میروائس بھی اس نئے مرض میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ ایک ہی وارڈ کے تین ڈاکٹروں کے کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد ان کے ساتھ کام کرنے یا حال ہی میں ملنے والے ڈاکٹرز نے بھی احتیاطبی تدابیراختیار کرتے ہوئے خود کو قرنطینہ کر لیا ہے۔
ممحکمہ صحت بلوچستان کے ڈائریکٹر جنرل محمد سلیم ابڑو نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ کوئٹہ میں اب تک 10 ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کے ایک رکن میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کوئٹہ زون کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر مشتاق بھنگر کا کہنا ہے کہ یہ تمام وہ ڈاکٹرز ہیں جو نہ تو کرونا کے مریضوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے اور نہ ہی ان کی کسی قرنطینہ مرکزپر ڈیوٹی تھی۔
’یہ مقامی منتقلی کے کیسز ہیں اور اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آبادی میں وائرس پھیل چکا ہے۔ محدود سہولیات کی وجہ سے یومیہ انتہائی قلیل تعداد میں ٹیسٹ کیے جارہے ہیں اس لیے کورونا کے متاثرین کی بہت کم تعداد سامنے آرہی ہے جبکہ حقیقت میں متاثرین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔‘

ڈاکٹر مشتاق کے مطابق یہ مقامی منتقلی کے کیسز ہیں اور اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آبادی میں وائرس پھیل چکا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

ڈاکٹر مشتاق بھنگر کا کہنا ہے کہ آبادی میں وائرس پھیلنے کی وجہ سے ہر ڈاکٹر خطرے سے دو چار ہو گیا ہے کیونکہ ہسپتال آنے والا کوئی بھی مریض کورونا ساتھ لے کر آسکتا ہے۔
ایک مہینہ گزرنے کے بعد بھی محکمہ صحت نے ڈاکٹروں کو خصوصی لباس، ماسک، دستانے اور ذاتی حفاظتی سامان (پی پی ای کٹس) فراہم نہیں کیا۔
سول ہسپتال کے پیڈز وارڈ میں کام کرنے والے ڈاکٹر امین اللہ کی رہائش ہسپتال سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ وہ پہلے ڈیوٹی ختم کر کے روزانہ گھر جاتے تھے مگر اب وہ دو ہفتوں سے گھر نہیں گئے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر امین اللہ نے بتایا کہ ڈیوٹی کرکے اکثر ڈاکٹر گھر نہیں جا رہے۔
’ہم وارڈ میں یا پھر ہسپتال کے سرکاری ہاسٹل میں رہتے ہیں کیونکہ ہمیں یہ ڈر رہتا ہے کہ اگر خدا نخواستہ کسی مریض سے ہمیں کورونا وائرس منتقل ہوا تو پھر ہم سے یہ باقی گھر والوں کو لگ سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر امین اللہ کے مطابق جن کے گھر انتہائی قریب ہیں وہ بھی گھر نہیں جا رہے۔
’پہلے ہم ہاسٹل کے ایک کمرے میں تین چار ڈاکٹر ایک ساتھ رہتے تھے، اب ڈر کی وجہ سے سب علیحدہ علیحدہ کمروں میں رہتے ہیں۔ ملنا جلنا بھی بالکل بند کر دیا ہے۔ وارڈ میں بھی ممکنہ حد تک فاصلہ رکھ کر مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت دستانے اور ماسک کا بندوبست کیا ہے مگر حفاظتی سامان نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات پیش آرہی ہیں۔ ڈاکٹرز کے لیے دن بہ دن ڈیوٹی نہایت ہی مشکل ہوتی جارہی ہے۔‘

کوئٹہ میں ڈاکٹرز حفاظتی سامان کی عدم فراہمی کی شکایت کر رہے ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)

ان کا کہنا ہے کہ ہم ڈیوٹی ختم کرکے ہاسٹل میں آکر خود کھانا پکاتے ہیں کیونکہ لاک ڈاﺅن کی وجہ سے ہوٹل بند ہیں، باہر سے کھانا بھی نہیں منگوا سکتے، باقی سہولیات بھی موجود نہیں۔
فاطمہ جناح جنرل اینڈ چیسٹ ہسپتال کوئٹہ میں قائم کورونا کی تشخیص کے لیے صوبے کی واحد لیبارٹری میں روزانہ درجنوں ڈاکٹر اور پیرا میڈیکس اپنا ٹیسٹ کرانے آرہے ہیں۔ ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر نوراللہ موسیٰ خیل کے مطابق اب تک تقریباً 2200 افراد کے ٹیسٹ کرچکے ہیں، دو سو سے زائد ڈاکٹر اور پیرا میڈیکس کے ٹیسٹ ہوئے ہیں۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر یاسر خوستی کے مطابق پچاس سے زائد ڈاکٹروں کے کورونا ٹیسٹ نتائج ابھی آنا باقی ہیں، خدشہ ہے کہ متاثرہ ڈاکٹروں کی تعداد بڑھے گی۔ 
’اگر ایسا ہوا تو صحت کے شعبے پر مزید دباﺅ بڑھے گا حکومت اس کے لیے فوری اقدامات کریں۔ افرادی قوت بڑھانے کے لیے اقدامات کریں۔ اگر ڈاکٹر ہی مریض ہوگئے تو عوام کا علاج کون کرے گا؟‘
انہوں نے کہا کہ میڈیا پر سامنے آنے والے وزراء اور بیوروکریٹس تو این نائٹی فائیو ماسک پہنے ہوئے نظر آتے ہیں مگر ڈاکٹرز جو سب سے زیادہ خطرے سے دو چار ہیں انہیں اب تک یہ ماسک اور کٹس نہیں ملیں۔
پی ایم اے کوئٹہ کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر مشتاق بھنگر کا کہنا ہے کہ بلوچستان حکومت کورونا کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے عالمی ادارہ صحت کے اصولوں پر عمل درآمد نہیں کر رہی۔

 محمد سلیم ابڑو کے مطابق انہیں 800 حفاظتی کٹس ملی ہیں جنہیں جلد تقسیم کردیا جائے گا۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

انہوں نے بتایا کہ’عام وارڈ ز میں کام کرنے والے تو دور کورونا آئسولیشن وارڈز اور قرنطینہ مراکز پر کام کرنے والے ڈاکٹروں کو بھی مطلوبہ سہولیات نہیں دی جا رہیں۔ قرنطینہ مراکز پر کام کرنے والے ڈاکٹرز سے ایک ہفتے سے زائد کام نہیں لینا چاہیے مگر تین تین ہفتوں سے کام کر رہے ہیں۔ ان ڈاکٹر سے صرف ایک ہفتے کی ڈیوٹی لینی چاہیے اور گھر جانے سے پہلے دو ہفتوں تک علیحدہ رہائش دینی چاہیے تاکہ اگر خدا نخواستہ کوئی کورونا کا شکار ہوتو پتہ چل سکے۔‘
حکومت بلوچستان کی جانب سے خریدے گئے سامان کی تقسیم اور نگرانی کے لیے قائم خصوصی کمیٹی کے رکن سیکریٹری بلدیات صالح ناصر کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرز کی حفاظتی سامان نہ ملنے کی شکایات درست ہیں۔
بلوچستان کوا س لیے بھی طبی آلات اورسامان کی قلت کا سامنا ہے کیونکہ صوبائی محکمہ صحت نے دو سالوں سے خریداری نہیں کی ۔
صالح ناصر کے مطابق کورونا کی وجہ سے ہنگامی صورتحال پیدا ہوئی تو کمپنیوں نے طلب بڑھنے پر حفاظتی اور طبی سامان مہنگا کردیا اورحکومت کی جانب سے خریداریوں کے لیے قائم کمیٹی کو مشکلات پیش آرہی ہیں۔
’اب وقفے وقفے سے سامان مل رہا ہے، تین ہزار حفاظتی کٹس مل گئی ہیں جن کی تقسیم کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔‘
محکمہ صحت بلوچستان کے ڈائریکٹر جنرل محمد سلیم ابڑو کے مطابق آج ہی انہیں 800 حفاظتی کٹس ملی ہیں جنہیں جلد تقسیم کردیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ طبی عملے کی کمی دور کرنے کے لیے دو ہفتوں میں 350 ڈاکٹرز اور 200 سے زائد نرس اور طبی عملہ بھرتی کیا جائے گا۔ 
 

شیئر: