Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی میں ڈبل سواری پر پابندی سے شہری پریشان

سندھ میں ایک ماہ سے جاری لاک ڈاؤن میں مزید سخت کردی گئی ہے (فوٹو اے ایف پی)
سندھ میں لاک ڈاؤن کو ایک مہینہ پورا ہو گیا ہے۔ صوبائی حکومت اور محکمہ پولیس نے لوگوں کو گھروں تک محدود رکھنے کے لیے موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر مکمل پابندی لگا دی ہے جبکہ گاڑی میں بھی دو سے زائد افراد کے سفر کرنے پر چالان کیا جا رہا ہے۔
تاہم ٹرانسپورٹ کی مکمل بندش کی وجہ سے ہسپتالوں کے ملازمین، صحافی اور ایسے دیگر شعبوں کے ملازمین کو دفتر آنے جانے میں انتہائی دقت کا سامنا ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ بند ہونے کی وجہ سے درمیانے اور نچلے طبقے کے نوکری پیشہ افراد کو کام پر آنے جانے میں دشواری کا سامنا ہے جبکہ ڈبل سواری پر پابندی سے ان کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔
حکومت کی جانب سے انتہائی ضروری قرار دیے گئے شعبے جیسے کہ طبی مراکز اور صحافتی اداروں کے ملازمین کو پہلے ڈبل سواری میں پابندی سے استثنیٰ حاصل تھا، اس کے علاوہ خواتین بھی بائیک پر مردوں کے ہمراہ سفر کر سکتی تھیں۔
تاہم کورونا وائرس کے خدشے کے سبب حکومت سندھ کی جانب سے لاک ڈاؤن کو مزید سخت کرتے ہوئے اب صحافیوں، میڈیکل ورکرز، خواتین حتیٰ کہ پولیس اہلکاروں کو بھی ڈبل سواری کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
رضوان احمد طارق روزنامہ جنگ اخبار سے منسلک سینئر صحافی و کالم نگار ہیں، سوموار کی صبح دفتر آتے وقت ٹریفک پولیس نے اس بات پر ان کا چالان کر دیا کہ انہوں نے دفتر میں کام کرنے والے پیج میکر کو اپنی موٹر سائیکل پر لفٹ دی تھی۔
رضوان نے اردو نیوز کو بتایا کہ پبلک ٹرانسپورٹ بند ہونے سے دفتر کے کافی ساتھی پریشان ہیں اور ہر روز دفتر آنے کے لیے رکشے ٹیکسی کو بھاری کرایہ ادا نہیں کرسکتے، ایسے میں وہ کسی ساتھی کو لفٹ دیتے ہیں۔
عاطف حسین کراچی میں ٹی وی رپورٹر ہیں، وہ اپنے ادارے کو کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن سے متعلق تمام تر خبریں فراہم کرتے ہیں۔ ان کے پاس ذاتی سواری نہیں لہذا وہ کسی ساتھی ملازم کے ساتھ موٹر سائیکل پر سفر کر لیتے ہیں تاہم ڈبل سواری کی پابندی کے بعد انہیں آمدو رفت میں انتہائی مشکلات پیش آرہی ہیں۔

حکام کے مطابق ڈبل سواری پر پولیس اہلکاروں کے بھی چالان کیے گئے ہیں (فوٹو اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ پورا دن انہیں یہی خیال پریشان کرتا ہے کہ وہ گھر واپس کیسے جائیں گے؟ 'میں لاک ڈاؤن میں اپنے کیمرہ مین کے ساتھ دفتر آرہا تھا مگر ڈبل سواری پر مکمل پابندی کے بعد اب میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں رہا دفتر آنے کا، اور میں اس صورتحال سے پریشان ہوں۔'
عاطف حسین نے بتایا کہ دورانِ کوریج انہوں نے اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے اس فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست بھی کی تاہم وزراء اس معاملے پر نرمی دکھانے کو تیار نہیں۔
عاطف حسین نے بتایا کہ ایک اعلیٰ پولیس افسران سے ملاقات میں جب صحافیوں نے یہ مسئلہ اٹھایا تو ان میں سے کسی نے سوال کیا کہ 'کیا صحافی خلائی مخلوق ہیں کہ انہیں اجازت دے دی جائے؟ جس پر جواب دیا گیا کہ صحافی واقعی خلائی مخلوق ہے جو اس حالت میں روز خوار ہو کر دفتر پہنچتا ہے اور بیشتر کو وقت پر تنخواہ تک نہیں ملتی۔'
دوسری جانب جمعرات کو عدالت عالیہ کی جانب سے صوبائی حکومت کو نوٹس جاری ہونے کے بعد وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے معاملے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے پولیس کو ہدایات جاری کی ہیں کہ صحافیوں کے ساتھ کسی قسم کی بدتمیزی نہ کی جائے اور ان کا ڈبل سواری پر چالان بھی نہ کیا جائے۔
وزیراعلی نے یہ بھی کہا ہے کہ 'ٹھوس وجہ بتانے پر خواتین کو ڈبل سواری کرنے دی جائے تاہم غیر ضروری باہر نکلنے والوں کو تنبیہہ کی جائے۔ اگر کوئی مریض ہے یا بیمار ہے، ہسپتال جانا چاہے تو کاغذ چیک کر کے جانے دیا جائے۔'
صحافیوں کی نمائندہ تنظیم کراچی یونین آف جرنلسٹ کے عہدیدار رضوان بھٹی نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہوں نے صحافیوں کی پریشانی کے حوالے سے وزیر اطلاعات سندھ سے رابطہ کیا ہے تاہم ان کی طرف سے کوئی حوصلہ افزاء جواب نہیں ملا۔

کراچی میں تاجر برادری کے اسرار پر لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی تھی (فوٹو اے ایف پی)

صحافیوں کے کچھ گروپس نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ اگر پولیس نے احکامات میں نرمی نہ کی تو وہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کی کوریج معطل کر دیں گے۔
پیرامیڈیکل سٹاف بھی اس پابندی سے شدید متاثر ہوا ہے۔ سول ہسپتال میں کام کرنے والے فیضان علی نے بتایا کہ ان کی رہائش اورنگی ٹاؤن میں ہے، ٹرانسپورٹ بند ہونے کی وجہ سے وہ راہ چلتے لوگوں سے لفٹ لیتے ہوئے آتے ہیں وہ بھی ایسے کہ جہاں پولیس ناکہ لگا ہوتا ہے وہ اتر جاتے اور پیدل چل کر ناکہ عبور کرتے، بعد میں کسی دوسرے شخص سے لفٹ کی درخواست کرتے۔ ایسا کرنے میں انہیں چار سے پانچ مرتبہ اتر کے مختلف لوگوں سے لفٹ لینا پڑتی ہے۔
دوسری جانب کراچی پولیس کے چیف غلام نبی میمن نے بتایا ہے کہ ڈبل سواری پر پابندی میں کسی کو رعایت نہیں دی جا رہی، یہاں تک کہ خلاف ورزی کرنے والے پولیس والوں کا بھی چالان کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک دن میں ڈبل سواری کی پابندی پر ڈیڑھ ہزار افراد کا چالان کیا گیا ہے جس میں تین پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
علاوہ ازیں یہ بھی اطلاعات تھیں کہ پولیس اہلکار لاک ڈاؤن اور ڈبل سواری پر پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کی گاڑی اور موٹر سائیکل کی ہوا نکال رہے ہیں۔
اے آئی جی غلام نبی میمن نے اس کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ایسا کرنے سے منع کیا ہے۔ انہوں نے ہدایت کی ہے کہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف صرف قانونی کارروائی اور چالان کیے جائیں۔
متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی پابندی سے سخت نالاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین پر بائیک سواری پہ پابندی کی وجہ سے وہ مجبوری کی حالت میں ہسپتال بھی نہیں جا سکتے۔

کراچی میں اکثر جگہوں پر شہریوں نے لاک ڈاؤن کے خلاف احتجاج بھی کیا ہے (فوٹو اے ایف پی)

ملیر کی رہائشی خاتون نے سوشل میڈیا پر وڈیو لگائی کہ وہ 8 ماہ کی حاملہ ہیں اور ہسپتال سے چیک اپ کروا کر واپس آرہی تھیں جب پولیس نے انہیں روک لیا اور ان کے شوہر کو بائیک سے اتار کر ٹائر کی ہوا نکال دی۔
ملیر کی ایک اور وڈیو بھی سوشل میڈیا پر آئی ہے جس میں کافی تعداد میں خواتین اور بائیک سواروں کو سڑک کنارے بائیک سمیت پیدل چلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ناکے پر پولیس اہلکاروں نے سب موٹر سائیکلوں کی ہوا نکال دی تھی جس کی وجہ سے وہ پیدل چل رہے ہیں۔
نارتھ کراچی کے رہائشی منہاج احمد فیکٹری میں سٹور کیپر ہیں، ٹرانسپورٹ بند ہونے کے باعث وہ اپنے علاقے کے ایک اور شخص سے درخواست کر کے اس کے ساتھ بائیک پہ فیکٹری جا رہے تھے۔
تاہم ڈبل سواری پر پابندی اور اس میں عمر رسیدہ افراد کو حاصل استثنیٰ ختم ہونے کے اب انہیں ڈر ہے کہ ان کی نوکری ختم ہو جائے گی اور وہ بے روزگار ہو جائیں گے۔ 

شیئر: