Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹی وی سے فلم تک جو بھی کیا کمال کیا! الوداع عرفان

ایک خبر نگاہ میں کیا آئی کہ آنکھوں کے سامنے ٹھاٹھیں مارتا سمندر پھیل گیا، ہچکولے کھاتی کشتی میں ایک نوعمر لڑکا جو بھوکے شیر کے حملوں سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔
لائف آف پائی‘ کی کہانی ان کی زندگی سے کافی ملتی جلتی معلوم ہوتی ہے۔
فلم میں بھی ان کی زندگی بہترین چل رہی ہوتی ہے کہ یکدم ایک طوفان در آتا ہے جبکہ حقیقی زندگی میں بھی جب وہ مشکلات کا مقابلہ کرنے کے بعد فلم انڈسٹری میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے تو طوفان نے آ لیا۔
فلم میں ان کا سامنا بھوکے شیر سے ہوا، حقیقی زندگی میں کینسر سے، فلم میں تو وہ خود کو بچانے میں کامیاب رہے لیکن آج وہ کینسر سے ہار گئے۔
وہ عرفان خان جو آج کی چھچھورپن سے بھری انڈسٹری میں بھی انتہائی باوقار انداز اپنائے ہوئے تھے، ان کی خوبصورت آواز، الفاظ کا چناؤ، قد کاٹھ، چہرے کے تاثرات اور ایک مشرقی سراپا انہیں ہر لحاظ سے ایک قیمتی انسان بناتا تھا۔
بلو باربر‘ کے حجام سے زیادہ سلجھا ہوا حجام کسی نے دیکھا ہے تو بتا دے۔
بائی پاس‘ کا کرپٹ پولیس افسر مرتے مرتے دل پسیج گیا۔
ڈیڈ لائن‘ اور ’مداری‘ کا اغوا کار جو سب کو جھنجھوڑ گیا۔
جذبہ‘ میں دنیا جہان سے لڑنے والا آخری منٹ تک محبوبہ سے دل کی بات نہ کہہ سکا۔
پان سنگھ تو مر‘ کے باغی سپاہی سے لے کر ’نیویارک‘ کے ایف بی آئی آفیسر، ’رائٹ یا رانگ‘ کے انسپکٹر، ’ہندی میڈیم‘ کے بیٹی کی پڑھائی کے لیے متفکر باپ، ’فٹ پاتھ‘ کے گینگسٹر اور ’قصور‘ کے وکیل تک جو بھی کام کیا خوب کیا۔

’کاش وہ یہ بھی کہہ دیتے

مجھے یاد ہے تقربیاً 20 سال قبل اسلم ماموں نے وی سی آر پر ’فٹ پاتھ‘ دیکھتے ہوئے سوجی آنکھوں، بھاری آواز اور کیمرے کے سامنے دھوتی ڈھیلی کر کے ٹائٹ کرنے والے اداکار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہالی وڈ کے اداکاروں سے کم نہیں، بڑا نام کمائے گا کاش کہ وہ اس وقت یہ بھی کہہ دیتے کہ لمبی عمر بھی پائے گا کیونکہ ان کی بات چند سال میں ہی سچ ثابت ہو گئی تھی۔

پاکستانی اداکارہ صبا قمر بھی عرفان خان کے ساتھ کام کر چکی ہیں (فوٹو: سپلائیڈ)

راجستھان سے ممبئی

انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق 1967 میں راجستھان کی مسلمان فیملی میں پیدا ہونے والے عرفان خان 1987 میں قسمت آزمائی کے لیے ممبئی گئے لیکن شروع کے کئی سال چھوٹے موٹے رول ادا کیے۔
بالی وڈ میں ان کی انٹری بطور ولن ہوئی تھی تاہم اپنی اثر انگیز شخصیت کی وجہ سے جلد ہی وہ مرکزی کرداروں کے لیے بھی چنے جانے لگے۔

جو بھی کیا کمال کیا

عرفان خان کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے روایتی کرداروں سے ہٹ کر کام کیا وہ ہیرو بنے بھی تو بہت مختلف، لڑکیوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے گانے گانا شاید ان کا مزاج نہیں تھا، اس لیے وہ سنجیدہ کرداروں میں زیادہ دکھائی دیے لیکن بہرحال ان کی حس مزاح بہت بلند تھی اور ان کے کئی ایسے ڈائیلاگ مشہور ہیں جن کی سمجھ کچھ دیر بعد ہی آتی ہے۔ انہوں نے ہالی وڈ کی فلموں میں بھی کا کیا۔

اداکار عرفان خان نے روایتی کرداروں سے ہٹ کر کام کیا (فوٹو: اے ایف پی)

جب دشمنِ جاں ظاہر ہوا

سنہ 2018 میں عرفان خان کی اس ٹویٹ نے مداحوں کو حیرت میں ڈال دیا تھا جس میں انہوں نے بیماری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا ’زندگی حیرت کا نام ہے، اس میں کبھی کبھی ایسا کچھ اچانک بھی ہو جاتا ہے جو بہت کچھ بدل دیتا ہے، میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ مجھے نیورو اینڈوکرائن ٹیومر نامی مرض لاحق ہو گیا ہے لیکن میرے اردگرد موجود لوگوں کی محبت مجھے طاقت اور امید دیتی ہے۔
اس کے کچھ روز بعد وہ علاج کے لیے لندن چلے گئے تھے اور تقریباً ایک سال بعد یعنی فروری 2019 میں انڈیا واپس لوٹے۔

ہر طرف غیریقینی ہے

کچھ عرصہ قبل انڈین میڈیا میں عرفان خان کا ایک خط شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے لندن کے ہسپتال سے اپنے ایک دوست کو لکھا تھا ’یہ جہان اور زندگی غیر یقینی سے ہی عبارت ہے۔ ہم بہت سے خواب اور پلاننگز لیے اپنی ہی دھن میں جا رہے ہوتے ہیں کہ دفعتاً ٹی ٹی کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہہ دیتا ہے ’آپ کا سٹیشن آ گیا ہے براہ مہربانی اتر جائیے۔

ٹکٹ کے پیسے نہیں تھے

ہالی وڈ فلم ’جراسک ورلڈ‘ میں سائن کیے جانے کے بعد ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ 1993 میں بننے والی جراسک پارک نامی فلم جب سینیما گھروں کی زنینت بنی تو اس وقت ایک عام سے نوجوان تھے اور فلم دیکھنا چاہتے لیکن ان کے پاس ٹکٹ خریدنے کے پیسے نہیں تھے تاہم آج وہ اسی سیریز کی فلم میں کام کر چکے ہیں۔

والدہ کا انتقال

تین روز قبل ہی راجستھان میں عرفان خان کی والدہ سعیدہ بیگم کا انتقال ہوا تھا چونکہ انڈیا میں لاک ڈاؤن چل رہا ہے اور وہ ممبئی میں تھے اس لیے وہ ان کے جنازے میں شامل نہ ہو سکے تھے اور ویڈیو کال کے ذریعے ہی والدہ کا آخری دیدار کر پائے تھے۔ شاید یہ ماں کی دعا ہی تھی کہ اب تک سانس کی ڈوری دراز کیے جا رہی تھی۔
'میں درد میں گھرا ہوں'
عرفان خان ایک حساس طبع انسان تھے، لندن کے ہسپتال سے دوست کے نام لکھے خط میں انہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’میں درد میں گِھرا ہوں، جانتا تھا کہ درد ہو گا لیکن ایسا درد ہو گا اس کا اندازہ نہیں تھا، لگتا ہے میں سمندر میں ڈولتے کاک کی طرح ہوں جس کا خود پر کوئی اختیار نہیں۔

عرفان خان کا شمار بالی وڈ کے نامور اداکاروں میں کیا جاتا ہے (فوٹو: اےا یف پی)

آخری ایام

ویسے تو عرفان خان بیماری کا شکار تھے لیکن بستر تک محدود ہونا شاید انہیں منظور نہیں تھا اس لیے علاج کے ساتھ ساتھ کام بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔
آخری دنوں میں بھی اپنی فلم ’انگریزی میڈیم‘ کی شوٹنگ کروا رہے تھے کئی بار طبعیت خراب ہونے پر شوٹنگ روکنا پڑ گئی تھی تاہم جوں ہی طبعیت بہتر ہوتی پھر سے سیٹ پر پہنچ جاتے، شاید انہیں اندازہ ہو گیا کہ وہ ان کے پاس وقت کم ہے۔
ان کا ایک ڈائیلاگ ہے ’شاید یہی سمجھانے آئے تھے دنیا میں، ہر دھرم محبت سکھاتا ہے، پر محبت کا تو کوئی دھرم نہیں ہوتا، وہ خود اپنے آپ میں ایک دھرم ہے۔
الوداع ۔۔۔ عرفان

شیئر: