Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا:مذہبی آزادی سے متعلق امریکی ادارے کی رپورٹ مسترد

رپورٹ میں انڈین حکام کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کی سفارش بھی کی گئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
امریکی کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی نے انڈیا پر مذہبی اقلیتوں کا تحفظ نہ کرنے پر تنقید کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ مذہبی آزادی انڈین آئین کا حصہ ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے حکومتی عہدیداروں پر پابندی لگائی جائے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انڈین حکومت نے امریکی کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کی سالانہ رپورٹ کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔
کمیشن کی رپورٹ کے مطابق انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت گذشتہ برس برسراقتدار آئی اور اس نے کچھ ایسی پالیسیز متعارف کروائیں جن سے انڈیا کے 17 کروڑ سے زائد مسلمانوں کے دل کو ٹھیس پہنچی، اور اس کے علاوہ ان کے خلاف نفرت اور تشدد کی مہم کی اجازت دی گئی۔
رپورٹ میں شہریت کے نئے قانون پر بھی تنقید کی گئی جس کے مطابق چھ ہمسایہ ممالک کے غیر مسلموں کو انڈیا کی شہریت دی جائے گی۔
کمیشن کا کہنا تھا کہ ’مرکز اور دیگر انڈین ریاستوں کی حکومتوں نے ملک بھر میں مذہبی اقلیتوں کو ہراساں کرنے اور ان پر تشدد کی چھوٹ دی۔‘
یہ کمیشن امریکی حکومت کی ایڈوائزری باڈی ہے جو دیگر ممالک میں مذہبی آزادی کی نگرانی کرتا ہے اور پھر امریکی صدر، سیکرٹری آف سٹیٹ اور کانگریس کو پالیسی تجویز کرتا ہے، تاہم وہ ان تجویزوں پر عمل کرنے کے پابند نہیں ہیں۔
کمیشن نے تجویز دی ہے کہ 2019 میں مذہبی آزادی میں تیزی سے کم ہونے کی وجہ سے انڈیا کو 'خاص تشویش والے ممالک' کی فہرست میں شامل کیا جائے۔
کمیشن نے امریکی حکومت کو یہ تجویز بھی دی ہے کہ ’مذہبی آزادی دینے کی خلاف ورزی کی ذمہ دار انڈین حکومت کی ایجنسیوں اور حکام پر پابندیاں لگاتے ہوئے ان کے اثاثے منجمند کیے جائیں اور، یا ان کا امریکہ میں داخلہ بند کیا جائے۔‘

انڈین وزارت خارجہ نے کمیشن کی رپورٹ کو رد کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ اس حوالے سے کون سی ایجنسیز یا حکام ذمہ دار ہیں۔
دوسری جانب انڈین وزارت خارجہ نے کمیشن کی رپورٹ کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس نے حد ہی پار کر دی ہے۔‘
وزارت کے ترجمان انوراگ شری واستوا کا رپورٹ کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’یہ تعصب پر مبنی ہے اور انڈیا کے متعلق اس طرح کا تبصرہ نیا نہیں ہے، لیکن اس موقعے پر غلط بیانی نئی سطح پر پہنچ گئی ہے۔‘

شیئر: