Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بات سبزی پر اٹک گئی

’میں سر عام یہ بات کہہ رہا ہوں کہ مسلمانوں سے سبزی مت خریدنا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
کورونا وائرس کی طرح ہندو مسلمان کا جھگڑا بھی کبھی پوری طرح ختم نہیں ہوگا یہ تو سب کو معلوم ہے لیکن اگر آپ یہ سمجھ رہے تھے کہ اس خطرناک دور میں کس کے پاس وقت ہے کہ اس بلاوجہ کی بحث میں پڑے تو سر، آپ کے لیے بری خبر ہے: بات سبزی پر آ کر اٹک گئی ہے۔
اور بات سبزی کی ہو تو پھر ہندو ہو یا مسلمان کون کم ظرف اپنے اصولوں پر سمجھوتا کرتا ہے؟
انڈیا کی شمالی ریاست اتر پردیش میں حکمراں بی جے پی کے ایک سیاستدان نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مسلمانوں سے سبزیاں نہ خریدیں۔ انہوں نے اپنے چاہنے والوں سے کہا کہ ’میری ایک بات ذہن نشیں کر لو، میں سرعام یہ بات کہہ رہا ہوں کہ مسلمانوں سے سبزی مت خریدنا۔

 

بعد میں جب ایک اخبار نے محترم قائد سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’ہاں میں نے یہ کہا تھا، میرے علم میں یہ بات لائی گئی تھی کہ ایک فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگ سبزیوں پر تھوک لگا کر کورونا وائرس پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں، اس لیے میں نے کہا کہ ان سے سبزی نہ خریدیں، آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ تبلیغی جماعت والوں نے پورے ملک میں کیا کارنامہ انجام دیا ہے۔
اور ہم سمجھتے رہے کہ یہ بے چارے غریب یا مجبور لوگ ہیں جو لمبے لاک ڈاؤن کے باوجود اپنی جان خطرے میں ڈال کر سبزی بیچ رہے ہیں، شاید ان کے کریڈٹ کارڈ کھو گئے ہیں اور ادھار دینے کے لیے تو آج کل فاضل آمدنی کسی کے پاس ہے نہیں اس لیے سوچا ہوگا کہ جب تک کاروبار دوبارہ شروع ہو، سبزی ہی بیچ لی جائے۔
لیکن ان لوگوں کی سازشوں سے تو بس اللہ ہی بچائے۔ یہ کوئی ایک اکیلا واقعہ نہیں ہے، ایسی خبریں آج کل اخباروں میں چھپتی رہتی ہیں۔
اور سب سے زیادہ نشانے پر سبزی بیچنے والے ہی ہیں۔ اس لیے آپ بھی ذرا احتیاط سے کام لیجیے گا کیونکہ ان خبروں میں ذرا بھی سچائی ہوئی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔
اگر کوئی سبزی والا آ کر آپ سے پوچھے کہ گھر میں کوئی کورونا وائرس کا مریض تو نہیں ہے، اگر ہو تو ذرا ان سے مصافحہ کروا دیجیے تاکہ میں سبزی بیچنے جا سکوں، تو ہوشیار ہو جائیے گا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

بی جے پی کے ایک سیاستدان نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مسلمانوں سے سبزیاں نہ خریدیں (فوٹو: اے ایف پی)

اور وہ یہ کہے کہ اگر ملنے کی حالت میں نہ ہوں تو بہت مہربانی ہوگی کہ اگر ان کا تھوڑا تھوک ہی مل جائے، سبزیوں پر لگانے کے کام آئے گا کیونکہ میں خود توکورونا وائرس پازیٹو ہوں نہیں اس لیے اپنا تھوک لگانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، تو بس آپ کا شک یقین میں بدل جانا چاہیے کہ یہ شخص سبزی فروشوں کے اسی بڑے گینگ کا حصہ ہے جس کا نیٹ ورک بظاہر پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔
گذشتہ ہفتے سکیورٹی ایجنسیوں کے حوالے سے یہ خبر بھی آئی تھی کہ پاکستان بھی کورونا وائرس کے مریض غیر قانونی طور پر ہندوستان میں داخل کرا رہا ہے تاکہ یہاں بیماری کو اور پھیلایا جا سکے۔
اس لیے اگر آپ کو کوئی ایسا شخص نظر آئے جو دیکھنے میں دہشت گرد یا کم سے کم شدت پسند لگتا ہو اور چاہے سبزی نہ بھی بیچ رہا ہو تب بھی اس سے فاصلہ بنا کر ہی رکھیے گا۔ یہ آئڈیا جس کا بھی ہے اور ان لوگوں کو جس مقصد سے بھی بھیجا جا رہا ہو، وہ شاید لائن لگا کر آنے کے لیے تیار ہو جائیں گے اور یہاں پہنچتے ہی علاج کے لیے سیدھے کسی ہسپتال میں داخل ہو جائیں گے۔
اس لیے اگر سرحد پار سے واقعی کوئی مریضوں کو ادھر بھیج رہا ہے اور رضاکاروں کی قطاریں لمبی ہوتی جا رہی ہوں، تو ہینڈلرز کے کان بھی کھڑے ہوجانے چاہئیں۔

’ہمارا فوکس تو صرف سبزی ہے جنہیں بیچنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اور ہاں، اگر آپ سبزی فروش ہیں اور کوئی شخص آپ سے کہے کہ میں تو صرف مسلمان سے ہی سبزی خریدوں گا تو ہوشیار ہو جائیے گا، ہو سکتا ہے کہ یہ شخص سرحد پار سے آیا ہو اور یہ سوچ کر بھیجا گیا ہو کہ وہ پازیٹو ہے لیکن ہو نہ کیونکہ چین سے منگائی جانے والی بہت سی ٹیسٹنگ کٹ الٹے سیدھے نتائج دے رہی ہیں۔ یقین نہ ہو تو انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ سے معلوم کر لیجیے، اس نے پانچ لاکھ کٹ منگوائی تھیں لیکن ان کے رزلٹ اتنے خراب نکلے کہ اب انہیں واپس بھیجنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
بہرحال، اس مسئلے سے کیسے نمٹنا ہے سکیورٹی ایجنسیاں جانیں، ہمارا فوکس تو صرف سبزی ہے جنہیں بیچنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
جھاڑکھنڈ میں ایک ہندو سبزی والے نے اپنے ٹھیلے کے سامنے یہ بینر لگا رکھا تھا کہ پھل اور سبزی کی اس دکان کو وشو ہندو پریشد کی منظوری حاصل ہے۔
 جب ٹھیلے کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تو اس نے پوری معصومیت سے کہا کہ وہ ہندو اور مسلمان میں فرق نہیں کرتا: میں ہندوؤں کو بھی سامان بیچتا ہوں اور مسلمانوں کو بھی۔ کرنا بھی نہیں چاہیے، لیکن نہ بیچنے میں اور نہ خریدنے میں۔ تو یوں سمجھیے کہ یہ بینر ایک طرح کا حلال سرٹیفیکشن ہے۔ وہ دن دور نہیں ہے جب سبزی والے وشو ہندو پریشد اور تبلیغی جماعت یا جمعیت علما کے جاری کردہ سرٹیفیکٹ لے کر گھوما کریں گے۔ اور ساتھ میں کورونا وائرس کی ٹیسٹنگ کٹ بھی۔

’تبلیغی جماعت کے کچھ لوگوں کی غلطی کی وجہ سے پورے فرقے کو نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ہندو ہندو کو سبزیاں بیچیں اور مسلمان مسلمانوں کو یہ کام تھوڑا مشکل ہے کیونکہ وزیراعظم بار بار ماسک پہننے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ پہلے تو کچھ لوگوں کو دیکھ کر پتا چل جاتا تھا کہ وہ کس مذہب پر عمل کرتے ہیں لیکن ان کا ماسک اتروا کر کون دیکھے گا، یہ خطرہ کون مول لے گا؟ اور اگر دیکھ کر پہچان نہ ہوئی تو کیا پاسپورٹ کی سیلف اٹیسٹڈ کاپی مانگی جائے گی؟
چند روز قبل ممبئی میں ایک شخص نے ایک نوجوان ڈلیوری بوائے سے سامان لینے سے انکار کر دیا کیونکہ۔۔۔ جی ہاں، وہ مسلمان تھا۔ لیکن ممبئی پولیس نے بلا تاخیر اس شخص کے خلاف مقدمہ قائم کیا اور اسے گرفتار کر لیا۔ ( انکار کرنے والے کو، ڈلیوری بوائے کو نہیں)۔
خود وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی کی نظریاتی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ یہ کہہ چکے ہیں کہ کورونا وائرس کی آڑ لے کر  مسلمانوں کو نشانہ نہ بنایا جائے۔
اتنے صاف الفاظ میں تو وہ کبھی بات نہیں کرتے لیکن بنیادی پیغام یہ ہی تھا۔ آر ایس ایس کے سربراہ نے کہا کہ (تبلیغی جماعت) کے کچھ لوگوں کی غلطی کی وجہ سے پورے فرقے کو نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وزیراعظم نے یہ بیان خلیجی اسلامی ممالک کی اس تشویش کو دور کرنے کے لیے دیا تھا کہ انڈیا میں ’اسلاموفوبیا‘ بڑھ رہا ہے۔

انڈیا میں تبلیغی اپنا پلازما عطیے کے طور پر دے رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انڈیا کے زیادہ تر اسلامی ممالک سے اچھے اور پرانے تعلقات ہیں جو اس کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ستون ہیں اور ظاہر ہے کہ انڈیا یہ نہیں چاہے گا کہ یہ روابط، جن میں مسٹر مودی نے کافی محنت انویسٹ کی ہے، کسی بھی طرح متاثر ہوں۔
آپ اس پالیسی کو انڈیا اور پاکستان کے رشتوں کے تناظر میں بھی دیکھ سکتے ہیں، مثال کے طور پر پاکستان کی مخالفت کے باجود او آئی سی نے گذشتہ برس مارچ میں ہندوستان کا دعوت نامہ منسوخ نہیں کیا تھا۔ لیکن یہ سفارتکاری کی باتیں ہیں، انہیں کسی اور دن کے لیے چھوڑتے ہیں۔
بہرحال، انڈیا میں تبلیغیوں کا ذکر پھر شروع ہوگیا ہے۔ اس مرتبہ وہ اپنا پلازما عطیے کے طور پر دے رہے ہیں۔ ان مریضوں کے علاج کے لیے جو کورونا وائرس کی زد میں آ کر بہت بیمار ہیں۔ دلی کے وزیراعلیٰ کے مطابق جن مریضوں کو اب تک بلڈ پلازما دیا گیا ہے ان کی حالت کافی بہتر ہوئی ہے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ پلازمہ چڑھاتے وقت ڈاکٹر یہ نہیں دیکھتے کہ عطیہ دینے والا ہندو تھا یا مسلمان۔ اس لیے جب ایسے ہندو یا مسلمان مریض اپنے گھروں کو لوٹیں گے، جنہیں کسی دوسرے مذہب پر عمل کرنے والے کے پلازمہ سے شفا ملی ہو، تو ہوسکتا ہے کہ وہ سبزی خریدتے وقت بیچنے والے کا مذہب نہ معلوم کریں۔
خون کا رنگ بھی ایک ہوتا ہے اور سبزیوں کا بھی، دینے والا کوئی بھی ہو۔

شیئر: