Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچوں کی نازیبا ویڈیوز بیچنے والے پاکستانی شہری کی سزا بحال

لاہور ہائی کورٹ نے 14 جون کو مجرم کی سزا معطل کردی تھی (فوٹو: اردو نیوز)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ہائی کورٹ نے بچوں کی نازیبا ویڈیوز اور تصاویر بیچنے والے مجرم سعادت امین کی سزا کے خلاف نظر ثانی اپیل کا فیصلہ سناتے ہوئے ٹرائل کورٹ کی سزا کو بحال رکھا ہے۔
اس سے پہلے لاہور ہائی کورٹ نے 14 جون کو مجرم کی درخواست پر سزا معطل کر کے اسے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ 
آج 19 مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے مجرم کی مرکزی اپیل کی سماعت کی۔ اس دوران سعادت امین کی طرف سے ان کے وکیل رانا ندیم احمد نے عدالت میں دلائل دیے کہ مقدمے میں بے انتہا نقائص ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جس شخص کی ایما پر یہ مقدمہ بنایا گیا وہ ناروے کا شہری ہے اور ٹرائل کورٹ نے ان کے بیانات قلم بند نہیں کیے اور نہ جرح کی گئی۔ انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ ان کے موکل پر سائبر کرائم کے جرم کا اطلاق نہیں ہوتا۔ 
وفاقی حکومت کے وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتیاق اے خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ ناروے کی پولیس مقدمے کی مدعی نہیں وہاں سے صرف معلومات لی گئیں، مقدمے کی مدعی وفاقی حکومت ہے۔ 
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ مجرم کے قبضے سے بچوں کی 6 لاکھ 57 ہزار نازیبا ویڈیوز اور تصاویر برآمد ہوئیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پریوینشن آف الیکٹرانک ایکٹ 2016 کے سیکشن 22 کے تحت ایسے مواد کا کسی کی تحویل میں ہونا ایک جرم ہے جس کی سزا 7 سال ہے۔ 

زینب کیس کے بعد سخت قانون سازی کے مطالبات کیے گئے (فوٹو اے ایف پی)

ان کے بقول وکیل دفاع کی بات اگر تسلیم بھی کر لی جائے کہ مواد کو ناروے منتقل کرنے سے متعلق مقدمہ نہیں چلایا گیا تو مواد کا مجرم کے پاس موجود ہونا ہی سزا کے لیے کافی ہے۔ 
مقدمہ سننے والے جج جسٹس فاروق حیدر نے دونوں اطراف کے دلائل کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے مجرم سعادت امین کی سزا کے خلاف نظر ثانی اپیل خارج کر دی اور ٹرائل کورٹ کی جانب سے دی گئی سات سال کی سزا بحال رکھی۔ 

مجرم کی ضمانت کیوں ہوئی تھی؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتیاق اے خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مجرم کے وکیل نے تکنیکی بنیادوں پر سزا معطلی کی درخواست دائر کی تھی۔
'ایک تو مجرم جیل میں آدھی سے زائد سزا کاٹ چکا تھا اور ابھی تک اس کی کریمینل رویژن یعنی نظر ثانی کی اپیل سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی تھی۔ تو ایسی صورت حال میں مجرم قانون میں موجود چھوٹ کا فائدہ حاصل کرتے ہیں اور سزا معطلی کا قانونی حق استعمال کر سکتے ہیں۔‘
اشتیاق اے خان نے بتایا کہ سزا معطلی کی درخواست میں مقدمے کے حقائق کے برعکس صرف تکنیکی پہلوؤں کی روشنی میں فیصلہ کیا جاتا ہے، اور اس مقدمے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ 

مجرم کے قبضے سے بچوں کی 6 لاکھ 57 ہزار نازیبا ویڈیوز اور تصاویر ملیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ مجرم کی سزا معطلی کا فیصلہ ہونے کے بعد عدالت نے مجرم کی نظر ثانی اپیل جس کے فکس نہ ہونے کی وجہ سے ریلیف ملا، اس کو سماعت کے لیے منظور کر لیا۔ 
ان کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے اپنا سزا معطلی کا فیصلہ واپس نہیں لیا تاہم جب مرکزی مقدمے کا فیصلہ سنا دیا جاتا ہے تو اس سے پہلے ملا ہوا ریلیف خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ 
خیال رہے کہ اس سے قبل پاکستان کے اٹارنی جنرل آفس نے 16 مئی کو ایک پریس ریلیز کے ذریعے یہ بیان دیا تھا کہ ہائی کورٹ سے مجرم کی رہائی کا تحریری فیصلہ جاری نہیں ہوا عدالت اس کیس کی دوبارہ سماعت کرے گی۔ 
تاہم لاہور ہائی کورٹ نے سزا معطلی کی درخواست پر دوبارہ سماعت کے بجائے مجرم کی طرف سے دائر مرکزی نظر ثانی کی اپیل پر فیصلہ سنا دیا، اب مجرم سپریم کورٹ جانے کا حق استعمال کر سکتا ہے۔

شیئر: