Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچوں سے زیادتی، پھانسی کی قرارداد منظور

فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ سرعام پھانسی بھی شدت پسندی کا اظہار ہو گا (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی قومی اسمبلی نے بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لی تاہم پیپلز پارٹی کی جانب سے قرار داد کی مخالفت کی گئی۔
قرارداد وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے پیش کی۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ ’بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے کا جرم ثابت ہونے پر انہیں سر عام پھانسی دی جائے۔‘
قرارداد پیش کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ ’بچوں سے زیادتی کے مجرمان کے لیے وزیراعظم سزائے موت چاہتے ہیں۔ زینب الرٹ بل میں بچوں سے زیادتی کے ملزمان کو سزائے موت کا مطالبہ آیا تو اس کی مخالفت کی گئی۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’حکومت اب بھی بچوں سے زیادتی کے ملزمان کو سزائے موت کا قانون بنانا چاہتی ہے۔ اپوزیشن بتائے وہ بچوں سے زیادتی کے ملزمان کو سزائے موت کے بل کی حمایت کرنے کو تیار ہے؟ این جی اوز سرعام سزائے موت کی مخالف ہیں۔‘  
پاکستان پیپلز پارٹی نے بچوں سے زیادتی کے مجرمان کی سرعام سزائے موت دینے کی مخالفت کی۔
سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے کہا کہ ’پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر چکا ہے، دنیا اسے قبول نہیں کرے گی۔ بہتر ہو گا کہ ایسے ملزمان کو عمر قید کی سزا دی جائے۔‘
سپیکر اسد قیصر کی جانب سے قرارداد پر رائے شماری کرائی گئی تو ایوان نے کثرت رائے سے بچوں کے ساتھ زیادتی کے مجرموں کو سرعام سزائے موت دینے کی قرارداد منظور کر لی۔
قرارداد منظور ہونے کے فوراً پاکستان تحریک انصاف کے دو وزرا وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری اور وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے اپنی ٹویٹس میں اس کی مخالفت کر دی۔
فواد چوہدری نے لکھا کہ ’ میں اس قرارداد کی سخت مذمت کرتا ہوں۔ یہ قرارداد شدت پسندی کے اظہار کی ایک علامت ہے۔ معاشرے ہمیشہ توازن کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ جرم کا جواب بربریت سے نہیں دیا جاتا۔‘
وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے قرارداد کی مخالفت میں ٹویٹ کی اور لکھا کہ ’یہ قرارداد پارٹی کی جانب سے پیش نہیں کی گئی بلکہ یہ ایک انفرادی فعل تھا، ہم میں سے کئی نے اس کی مخالفت کی اور میری وزارت بھی اس قرارداد کی مخالفت کرتی ہے۔‘
واضح رہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے رواں سال 10 جنوری کو زینب الرٹ بل پاس کیا تھا جس کے تحت ان افسران کو سزا سنائی جائے گی جو دو گھنٹے کے اندر بچے سے متعلق جرم پر ردِعمل نہیں دیں گے۔
قومی اسبلی میں حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ طور پر بل منظور کیا تھا۔ بل کے متن میں یہ بھی لکھا گیا کہ بچوں سے متعلق جرائم کا فیصلہ تین ماہ کے اندر کرنا ہو گا۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: