Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چلتا ہوں تھوڑی دور۔۔۔۔

کچھ باتیں کبھی پلے نہ پڑ سکیں اور کچھ سوالات کے آج تک ٹھوس جوابات نہیں ملے ۔مثلاً یہی کہ میرے والد متحدہ ہندوستان میں پیدا ہونے کے باوجود خود کو زندگی بھر افغان  کیوں سمجھتے رہے ؟ میں خود کون ہوں ؟ پاکستانی ، افغانی یا پھر بنی اسرائیل کے گمشدہ بارہویں قبیلے کا سابق یہودی ۔
اور یہ  برہمن  کیوں بضد ہیں کہ وہ سنٹرل ایشیا سمیت کہیں سے نہیں آئے۔بھگوان نے انہیں بھارت ماتا کا ہی بچہ پیدا کیا۔اور یہ ہر مسلمان کیوں قائل  ہے کہ اس میں کوئی مقامی خون نہیں اور وہ تو جنم جنم سے مسلمان ہے ۔ وہ تو آیا ہی عرب تاجروں کے کسی جہاز میں بیٹھ کر یا پھر محمد بن قاسم  کے لشکر میں سپاہی بن کر ، یا ایران کے راستے قافلے کے ساتھ چل کے یا پھر وسطی ایشیا سے براستہ افغانستان سرزمینِ ہندوستان پر قدم رکھا۔اس کے تمام پرکھے یا تو حازق حکیم تھے ، یا سخی تاجر یا پھر باکمال شاعر و مصور یا پھر سپاہ گر۔بارہ پشتوں میں ایک بھی موالی یا کنگلا نہیں تھا۔
یعنی مجھے اپنی رگوں میں سلجوقیوں سے لے کر یمنی تک ہر طرح کا خون  دوڑانا منظور ہے ۔مگر میں آپے سے باہر ہو جاتا ہوں جب کوئی مذاق میں بھی کہہ دے کہ ابے نو مسلم  ، چار پیڑھی پہلے تو پوجا پاٹ کرتا تھا اور اب اپنا ناتہ مدائن ، نجد ، بغداد ، بخارا اور جانے کہاں کہاں  سے جوڑ رہا ہے  ، نام کے آگے تبریزی لکھ رہا ہے ۔اچھا اگر تو اتنا ہی نجیب الطرفین غیر مقامی ہے تو پھر تجھے اخی کے بجائے رفیق کیوں کہا جاتا ہے ۔سب تیرے ہی برادر کیوں ہیں ، مگر سب تیرا تعارف الہندی الہندی ، الباکستانی ہندی کہتے ہوئے ہی کیوں کراتے ہیں۔
اور پھر یہ بھی بتا کہ کیا بخارا ، نیشا پور ، مشہد سے سارے کے سارے سئید ہی آئے تھے۔کیا فرغانہ کی وادی سے براستہ افغانستان لاہور ، دلی اور آگرہ پہنچنے والے سب کے سب مغل ہی تھے۔ ایسا ہی ہے تو پھر ان تمام شہروں میں جو ترکھان ، ہیر ڈریسر ، ریڑھی بان ، سنار ، دھوبی  اور معاشی طور پر جو باقی کمزور طبقات  بستے تھے ان میں سے کیا کوئی ایک بھی برصغیر میں نہیں آیا ؟  یا پھر وہاں صرف سئید  اور مغل ہی بستے تھے اور ان میں سے کوئی ایک بھی وہاں نہیں رہنا چاہتا تھا ۔مگر کیوں بھئی ؟
آج پاکستان کو بنے تہتر برس ہو گئے ۔یہ تو طے کر لیا کہ ہم نے یہ ملک دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنایا ہے مگر یہ اب تک طے نہیں ہو سکا کہ ہماری نسلی جڑیں بھی اسی برصغیر میں ہیں یا پھر ان خطوں میں جہاں کے لوگ آج بھی ہمیں اپنے جیسا نہیں مانتے۔

چلئے مان لیا کہ اسلام عرب میں پیدا ہوا اور پھر عجم بھی بلادِ عرب کا حصہ بن گیا اور ایک نیا ملا جلا مسلم کلچر وجود میں آیا ۔اس اعتبار سے برصغیر کے مسلمانوں پھر بھی مقامی کلچر کے ساتھ ساتھ عربی و عجمی کلچر کا اثر و نفوز  لازم تھا۔مگر کیا ثقافتی ناتا بیرونِ ہندوستان سے جوڑنے کا یہ مطلب ہے کہ ہم اس بات سے ہی انکار کر دیں کہ نسلی طور پر بھی ہمارا ہندوستان سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ہم تو بس اپنی اپنی من پسند جگہوں سے یہاں آ کر آباد ہوگئے۔ہمارا کچھ بھی مشرق میں نہیں ، سب کچھ وسطی و مغربی ایشیا سے جڑا ہوا ہے ۔
صرف اسلام ہی ہندوستان میں بیرونِ ہندوستان سے نہیں آیا۔مسیحت بھی ہندوستان میں مغربی مبلغین کے توسط سے آئی ۔آپ نے اینگلو انڈین کلچر کے بارے میں سنا ہوگا۔یہ بھی تھے تو اسی مٹی کے مگر زہنی اعتبار سے خود کو برطانوی گوروں کے ہم پلہ سمجھتے تھے۔چنانچہ نہ وہ برطانیہ کے ہو سکے نہ ہی ہندوستان کے ۔اس کے برعکس گوا  کے عیسائی پرتگالی نوآبادیاتی تہذیب میں رنگے ہوئے تھے۔مگر انہوں نے کبھی اپنی مقامی جڑوں سے انکار نہیں کیا اور یہ دعوی نہیں کیا کہ چونکہ وہ پرتگالی بول اور سمجھ لیتے ہیں اور چونکہ وہ کرسمس پرتگالی رسم و رواج  کے ساتھ مناتے ہیں ، چونکہ وہ پھرتگالی میوزک اور پکوان بھی پسند کرتے ہیں لہذا وہ بھی دراصل پرتگالی ہیں۔
میں پاکستان بننے کے بعد پیدا ہوا۔جب پرائمری اسکول میں تھا تو  درسی کتاب نے یہ بتایا کہ مسلمانوں کی آمد سے پہلے برصغیر میں موریا اور اشوکا سمیت کئی عظیم الشان سلطنتیں تھیں اور ہندوستان سونے کی چڑیا کہلاتا تھا۔

جب مشرقی پاکستان ” ہندو سازش کی بنیاد پر ”  ہم سے الگ ہو گیا تو درسی کتابوں نے بھی اپنا تاریخی قطب نما ایڈجسٹ کیا اور محمد بن قاسم سے پہلے کا برصغیر اچانک سے تاریک کفرستان بن گیا جس میں کوئی ایک کردار یا دور اس قابل نہیں تھا کہ اسے پاکستانی مسلمان بچوں کو پڑھایا جا سکے ۔
ضیا دور میں درسی کتابیں پڑھ کے یوں لگا گویا برصغیر میں آج تک جو کچھ بھی اچھا ہے وہ سب کا سب مسلمان بادشاہتوں کا مرہونِ منت ہے ۔جنگِ آزادی صرف مسلمانوں نے ہی بہادر شاہ ظفر اور جنرل بخت خان روہیلہ کی قیادت میں لڑی۔شاید تھوڑے بہت ہندو سپاہی بھی تھے۔ اور انیس سو سینتالیس میں مسلمان تو لاکھوں کی تعداد میں شہید ہوئے ۔مگر ہندو سکھ کتنے مرے ۔یہ آپ ان سے پوچھئے ،ہمارا کیا واسطہ۔
اسی دور میں سر سئید احمد خان کو اکبرِ اعظم  کے مقابلے میں اپ گریڈ  کر کے محمد بن قاسم کا ہم پلہ بنا دیا گیا  اور ثقافتی قطب نما کی سوئی جو ایوبی دور سے ایرانی تہذیب کی جانب جھکی ہوئی تھی اس کا قبلہ پھر سے درست کیا گیا۔
آج پھر اس ثقافتی قطب نما  کی سمت میں تبدیلی کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے اور اب کہا جا رہا ہے کہ نہ ہم عرب ہیں نہ عجمی ہم تو سیدھے سیدھے ترک ہیں اور وہ بھی اصلی نسلی عثمانی ترک ۔
یوں ہی ایک شعر یاد آ رہا ہے
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک رہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی رہبر کو میں
 

شیئر: