Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شام میں تصفیے کے لیے پوتن کا کردار

پوٹین نے پرامن بات چیت کی حوصلہ افزائی پر زور دیا ہے(فوٹو اے ایف پی)
 روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ترکی اور ایران میں اپنے ہم منصبوں سے شام میں حریف افواج کے درمیان پرامن بات چیت کی حوصلہ افزائی کرنے کے پر زور دیا ہے تاکہ وہ اس ملک میں جاری نو سالہ تلخ کشمکش کو ختم کریں۔
یکم جولائی کو ترکی کے رجب طیب اردوغان اور ایران کے حسن روحانی کے ساتھ ٹیلیویژن ویڈیو کانفرنس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے روسی رہنما نے کہا ’جنیوا میں آئینی کمیٹی کے دائرہ کار میں شام کو شامل ہونے والی باہمی بات چیت کو فعال طور پر فروغ دیا جانا چاہیے۔ میں اس عمل کی حمایت کرنے،شرکا سے ملنے اور براہ راست مکالمہ شروع کرنے میں مدد کرنے کی تجویز کرتا ہوں‘۔
یہ ابھی واضح نہیں کہ تینوں ممالک حقیقی سیاسی منتقلی پر کس حد تک اتفاق کر سکتے ہیں خاص طور پر انقرہ اور تہران نے بڑے پیمانے پر مختلف علاقائی ایجنڈوں کی حمایت کی ہے۔

انقرہ اور تہران نے بڑے پیمانے پر مختلف علاقائی ایجنڈوں کی حمایت کی ہے۔(فوٹو اے ایف پی)

لیکن آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک سکالر گیلپ ڈالی کا خیال ہے کہ ایک بات یقینی ہے، ادلب میں نام نہاد ’آستانہ تین‘ موثر طریقے سے ’آستانہ دو‘ بن گیا ہے۔
انہوں نے عرب نیوز کے مینیکس ٹوکی  کو بتایا ’اس کے نتیجے میں ایران کو ترکی اور روس کے درمیان ہونے والے کسی بھی معاہدے کو کمزور کرنے کی تحریک مل جاتی ہے‘۔
انہوں نے کہا ’جب شام کی تقسیم اور بڑے پیمانے پر امریکی کردار کی مخالفت کرنے کی بات کی جاتی ہے تو ایران اور ترکی دونوں کے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں لیکن ان کی ترجیحات تقریباً پر متصادم ہیں‘۔
’وہ تنازعات کے انتظامی عمل کو راستے میں رکھنے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن ان کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے‘۔
روس اور ایران شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت کے اہم حامی رہے ہیں جبکہ ترکی حزب اختلاف کی حمایت کرتا ہے۔

روس اور ایران شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت کے اہم حامی رہے ہیں(فوٹو اے ایف پی)

تینوں ممالک نے 2017 میں شروع ہونے والے سفارتی عمل کے حصے کے طور پر شام میں لڑائی کو کم کرنے کے لیے تعاون شروع کیا۔
استنبول میں عمران سینٹر برائے سٹریٹجک سٹڈیز کے محقق بیدر ملا رشید نے کہا ہے کہ خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے ہی ایران اور ترکی شام کے بارے میں بالواسطہ تصادم میں ہیں۔
ٹیلیویژن ویڈیو کانفرنس کے دوران ایران کے صدر روحانی نے ایک بار پھر ’بشار الاسد کی قانونی حکومت‘ کے لیے اپنے ملک کی حمایت کا وعدہ کیا۔
توقع ہےکہ ضامن ممالک کےمابین آئندہ سہ فریقی اجلاس ایران میں ہو گا لیکن ابھی اس کی کوئی تاریخ طے نہیں کی جاسکتی ہے۔
دریں اثنا اقوام متحدہ کی زیر نگرانی شام کی آئینی کمیٹی کے مذاکرات کا تیسرا دور آئندہ ماہ منعقد ہونا ہے۔
جنیوا میں اکتوبر 2019 کو شروع کی گئی 150 رکنی کمیٹی میں شامی حکومت اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کے علاوہ شہری نمائندے شامل ہیں۔
انقرہ نے شام کی کردش ڈیموکریٹک یونین پارٹی (پی وائی ڈی) جسے وہ ایک دہشت گرد گروہ سمجھتی ہے کو جنیوا مذاکرات میں حصہ لینے سے روک دیا ہے۔
رشید کے مطابق ایران کو اپنے فوجی ملیشیاؤں اور امدادی اداروں کے توسط سے شام میں اپنا اثر و رسوخ مضبوط بنانے کی امید ہے۔
واشنگٹن میں واقع عرب سینٹر میں مشرقِ وسطیٰ کی خارجہ پالیسی کے تجزیہ کار جو میکارون نے کہا ہے کہ علاقائی خاص طور پر شام پر امریکی سیزر ایکٹ کی پابندیاں ’سیاسی تصفیہ تک پہنچنے کے لیے آگے کا راستہ بنانے کا تصور کرنا مشکل بناتی ہیں۔‘
سیزر ایکٹ 17 جون 2020 کو نافذ ہوا  جس پر پابندیوں کے ساتھ شامی حکومت کو جنگی جرائم کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
میکارون نے عرب نیوز کو بتایا ’ادلب ترکی اور روس کے مابین ایک متنازع مسئلہ ہے جبکہ شمال مشرقی شام میں ماسکو اور واشنگٹن کے مابین مقابلہ جاری ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ حریف ممالک ’اپنے اثر کو مستحکم کرنے کے لیے وقت کی خریداری میں دلچسپی لیتے دکھائی دیتے ہیں‘ اور موجودہ شرائط کے تحت اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔’

ماسکو عبوری حکومت کے نظریے کو واپس کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔(فوٹو سوشل میڈیا)

مشرقِ وسطیٰ کے انسٹیٹیوٹ پروگرام برائے شام کے ایک غیر ماہر سکالر انٹون مردسوف نے عرب نیوز کو بتایا  ’دمشق نے سیاسی عمل کو روکا اور جنیوا میں کمیٹی کے اجلاسوں میں خلل ڈالنے کی کوشش کی۔‘
انہوں نے مزید کہا ’یہ سارا عمل ایک افسانہ ہے جسے روس کسی سمجھوتے کی آڑ میں کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
مرداسوف کا خیال ہے کہ 2021 میں شام اور ایران میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے ساتھ ہی  ایک مختصر مدت میں سمجھوتہ کرنے والے حل کا امکان نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماسکو عبوری حکومت کے نظریہ کو واپس کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ترکی اور روس کے مابین ہونے والے مذاکرات کی اصل توجہ شام کے مشرقی حصے کے بارے میں معلوم ہوتی ہے۔

شیئر: