قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کے فضائی حملے میں اس کے دو نمائندوں سمیت پانچ صحافی ہلاک ہو گئے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں اداے اے ایف پی کے مطابق نشریاتی ادارے کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اس کے سٹاف کے رہائشی خمیے کو اتوار کو نشانہ بنایا گیا اور مرنے والوں میں ایک مشہور رپورٹر اور تین کیمرہ مین شامل تھے۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے اعترافی بیان میں انس الشریف کو ’دہشت گر‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ وہ حماس سے وابستہ تھے۔
اس واقعے کے بعد میڈیا پر نظر رکھنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ 22 ماہ سے جاری جنگ کے دوران ہونے والے حملوں سے اب تک 200 کے قریب میڈیا ورکرز ہلاک ہو چکے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
فلسطینی اتھارٹی نے الجزیرہ کی نشریات عارضی طور پر بند کر دیںNode ID: 883811
قطر سے تعلق رکھنے والے براڈ کاسٹ ادارے کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ ’رپورٹر انس الشریف کو چار ساتھیوں سمیت اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ غزہ میں صحافیوں کی خیمہ بستی میں موجود تھے۔ دیگر مرنے والوں میں محمد قریقاہ کے علاوہ تین کیمرہ مین ابراہیم ظاہر، محمد نوفل اور مومن علیوا شامل تھے۔‘
بیان کے مطابق انس الشریف عربی سے سروس وابستہ تھے اور ان کا تعلق شمالی غزہ کے علاقے سے تھا۔

اسرائیلی فوج کے بیان کے مطابق ’انس الشریف نے حماس کے اندر ٹیررسٹ سیل کی سبراہی کی اور اسرائیلی فوج و عوام پر راکٹ حملوں کے ذمہ دار تھے۔‘
انس الشریف ادارے کے نمایاں ترین چہروں میں سے ایک تھے اور غزہ سے روزانہ کی بنیاد پر کوریج کر رہے تھے۔
اتوار کو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایک پریس کانفرنس میں غزہ میں نئے حملوں کی منظوری کی حمایت کی تھی اور اس کے بعد انس الشریف نے ایکس پر پوسٹ میں اسرائیلی حملوں کی تفصیلات بتائی تھیں اور حملوں کی ایک شارٹ ویڈیو بھی ڈالی تھی۔
جولائی میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی جانب سے ایک بیان میں ان کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اسرائیلی فوج کے ترجمان اویچے ارادی پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ انس الشریف کا حماس سے تعلق جوڑنے کے لیے سرگرم ہیں۔
واقعے کے بعد سی پی جے کی ریجنل ڈائریکٹر سارا قداہ کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل کی جانب سے صحافیوں کو بغیر کسی ثبوت کے عسکریت پسند قرار دینے سے میڈیا کی آزادی کے بارے میں سنجیدہ سوالات کھڑے ہوئے ہیں۔‘
