Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومتی احکامات کی خلاف ورزی، کئی نجی سکولز کھل گئے

وفاقی حکومت نے 15 ستمبر سے تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
پاکستان کے مختلف شہروں میں نجی سکول مالکان نے حکومتی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کورونا وبا کے باعث پانچ ماہ سے بند تعلیمی ادارے جزوی طور پر کھول دیے ہیں۔ صوبائی حکومتوں نے احکامات کی خلاف ورزی پر نجی سکولز کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان میں کورونا کی وبا کے پیش نظر مارچ کے وسط میں حکومت نے ملک بھر میں تمام تعلیمی ادارے بند رکھنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ وفاقی حکومت نے 15 ستمبر سے تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم بعض نجی سکولوں کے مالکان نے حکومتی احکامات سے ایک ماہ پہلے ہی سکول کھولنا شروع کر دیے ہیں۔
چھوٹے نجی سکولوں کے مالکان کی تنظیم ’آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن' کے سینیئر نائب صدر ملک ابرار حسین نے اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب مدارس، مساجد، سینما، ہوٹل، ریستوران اور پبلک ٹرانسپورٹ سمیت باقی تمام شعبے کھول دیے گئے ہیں تو سکول اور تعلیمی ادارے بند رکھنے کا کیا جواز ہے؟
مسلسل سکول بند ہونے سے بچوں کا تعلیمی سال ضائع ہو رہا ہے، دوسری جانب مالکان بھی مالی بحران کا شکار ہیں۔
ملک ابرار حسین نے  بتایا کہ پنجاب، سندھ ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے چھوٹے نجی سکولوں کے مالکان نے مرحلہ وار سکول کھولنا شروع کر دیے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ دیہی علاقوں کے 80 سے 90 فیصد سکول کھل گئے ہیں جبکہ شہری علاقوں میں بھی سکول کھلے ہوئے ہیں۔

پاکستان میں 30 ہزار سکول کورونا کے دوران مستقل طور پر بند ہوگئے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

ان کا کہنا تھا کہ کیمبرج، بیکن ہاﺅس، سٹی سکول جیسے بڑے تعلیمی نیٹ ورکس ابھی تک بند ہیں کیونکہ ان کا نیا تعلیمی سال ویسے بھی ستمبر میں ہی شروع ہوتا ہے، انہیں چھوٹے سکولوں کے مالکان جیسی مشکلات کا بھی سامنا نہیں۔
’ہمارے ہاں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے بچے پڑھتے ہیں جن میں سے بیشتر آن لائن کلاسز سے محروم ہیں۔‘ 
ملک ابرار حسین کے مطابق ’ہم نے پہلے مرحلے میں بڑی کلاسز کا آغاز کیا ہے۔ میٹرک کے طلبہ کے بورڈ کے امتحانات قریب ہیں اور ان کے پاس تیاری کا وقت بھی کم ہے، اس لیے ان کی کلاسز فوری شروع کر دی گئی ہیں۔ چھوٹی کلاسز کا آغاز اگلے مرحلے میں کیا جائےگا۔‘
انہوں نے کہا کہ اب تک طلبہ کی حاضری کم ہے مگر اگلے چند دنوں میں حاضری معمول پر آجائے گی۔
’سکولوں میں ایس او پیز پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے، اس سلسلے میں عملے اور طلبہ کو ہدایات بھی دی گئی ہیں کہ اسمبلی نہیں ہوگی، ماسک اور سینیٹائزر کا استعمال کیا جائے گا اور کلاس میں بھی سماجی فاصلے کو یقینی بنایا جائے گا۔‘
آل سندھ پرائیویٹ سکولز اینڈ کالجز کے چیئرمین حیدر علی نے بتایا کہ کراچی اور حیدرآباد میں بیشتر سکول بند ہیں تاہم نواحی علاقوں اور اندرون سندھ میں بعض سکول مالکان نے اپنی پریشانی اور مشکلات کے پیش نظر سکول کھول دیے ہیں۔ اکثر کے لیے چھ ماہ سے کرائے، تنخواہیں اور دیگر اخراجات پورا کرنا مشکل ہوگیا تھا۔

 نجی سکولوں کی انتظامیہ کا سکول جلدی کھولنے کا مطالبہ ہے۔ فوٹو اے ایف پی

سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی کا کہنا ہے کہ نجی سکول کھولنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ سیکریٹری تعلیم اور ڈی جی پرائیوٹ سکولز کو ہدایت جاری کی گئی ہیں کہ جو نجی سکول کھلے ہیں ان کی رجسٹریشن فوری کینسل کی جائے۔ 
خیبر پختونخوا میں بھی بعض نجی سکول کھلنے کی خبروں پر صوبائی حکومت نے نوٹس لیا ہے اور ان تعلیمی اداروں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی ہے۔
بلوچستان میں پرائیویٹ سکول گرینڈ الائنس کے ترجمان نذر بڑیچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ بلوچستان میں 2800 نجی سکول ہیں جن میں سے 1400 کوئٹہ میں رجسٹرڈ ہیں، بڑے اور کمرشل تعلیمی نیٹ ورک کے علاوہ صوبے میں تقریباً 90 فیصد سکولز کھل گئے ہیں، مدارس اور دینی اداروں کے سکول عید الفطر کے بعد ہی کھل گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں گنتی کے چند ہی بڑے سکولوں میں آن لائن کلاسز ہو رہی تھیں جبکہ باقی تمام بچوں کا وقت ضائع ہورہا تھا، اس لیے سکول کھول دیے گئے ہیں۔
ملک ابرار حسین کے مطابق حکومت نے جب باقی تمام شعبے کھول دیے تو تعلیمی اداروں کو بھی جلد کھولنے کی اجازت دینی چاہیے۔
’نجی سکولوں سے پندرہ لاکھ اساتذہ اورپانچ لاکھ دیگر افراد کا براہ راست روزگار وابستہ ہے۔ پانچ ماہ سے تعلیمی ادارے بند ہونے کے باعث ان سکولوں کے مالکان مالی بحران کا شکار ہوگئے ہیں جن کی فیسیں پانچ سو سے پانچ ہزار تک تھیں۔‘

 بہت کم بچوں کے پاس آن لائن تعلیم حاصل کرنے کے وسائل ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں دو لاکھ سات ہزار نجی سکولز ہیں جن میں سے 30 ہزار سکولز کورونا کی وبا کے دوران مالی بحران کے باعث مستقل طور پر بند ہوگئے، کیونکہ پانچ ماہ کے دوران پانچ فیصد والدین نے بھی فیس جمع نہیں کروائی۔
عمارتوں کے کرائے، عملے کی تنخواہیں اور دیگر انتظامی اخراجات کا بوجھ برداشت نہ کرنے والے مالکان سکولوں کو مستقل طور پر بند کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

شیئر: