Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرائے عالمگیر کے رنگا رنگ موڑھے کیسے بنتے ہیں؟

اگر آپ راولپنڈی اسلام آباد سے جی ٹی روڈ کے راستے سفر کریں تو دریائے جہلم پار کرنے کے بعد آپ کو سڑک کے اطرف میں مچھلی فروشوں کے ڈھابوں کے بعد پنجاب کے سیاسی ڈیروں کی پہچان سمجھے جانے والے رنگارنگ موڑھے اور دلکش خوبصورت دھاگوں اور شیشوں سے مزین مختلف سجاوٹی اشیاء کی دکانیں نظر آئیں گی۔
یہ دکانیں ایک زمانے میں بہت بڑی تعداد میں تھیں۔ اب اگرچہ ان کی تعداد کم ہوگئی ہے لیکن وہ سرائے عالمگیر کی مستقل پہچان بن چکی ہیں۔
سرائے عالمگیر پاکستان کے صوبہ پنجاب ضلع گجرات کی تحصیل سرائے عالمگیر کا مرکزی قصبہ ہے۔ جو دریائے جہلم کے مشرقی کنارے پر 575 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ شہر کے مشرق میں نہر اپر جہلم ہے۔

 

مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیرنے جی ٹی روڈ اور دریائے جہلم پر واقع سٹریٹجک محل وقوع اور کشمیر سے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں سرائے قائم کی تھی اور اسی کی نسبت سے اس کا نام بھی سرائے عالمگیر پڑگیا۔
یہ تو سرائے عالمگیر کا تعارف اور تاریخ ہے لیکن اس شہر کے بیچوں بیچ گزرتے جی ٹی روڈ پر واقع روائتی موڑھوں کی دکانیں بھی اپنے اندر ایک تاریخ سموئے ہوئے ہیں۔
موڑھوں کی ایک دکان کے مالک چاچا سراج دین کے مطابق 'ان موڑھوں اور سجاوٹی اشیاء کے ان کے کاروبار کا سفر فیروز پور انڈیا سے شروع ہوتا ہے اور قصور کے راستے 55 سال قبل سرائے عالمگیر پہنچتا ہے۔'
چاچا سراج دین نے بتایا کہ سرائے عالمگیر سے جہلم جانے والے پرانے راستے جس کے ساتھ ریلوے لائن بھی موجود ہے پر جائیں تو وہاں ان کے کاروبار سے متعلق خام مال تیار کرتے بچے بوڑھے اور جوان ملیں گے۔ ان سب کے آباو اجداد انڈیا سے ہجرت کرکے قصور آئے تھے لیکن وہاں مزدوری نہ ہونے کے باعث یہاں آگئے کیوں کہ دریائے جہلم کے ساتھ  بیلے اور جنگل میں سے سر اور سرکنڈے اور مسجدوں کی صفیں تیار کرنے کے لیے ڈب آسانی سے بلا روک ٹوک کاٹنے کو مل جاتا ہے۔

امداد علی نے 18 برس میں کم و بیش 20 ہزار سے زیادہ موڑھے بنائے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

دکان کے پچھلے حصے میں کاریگر امداد علی موڑھے بنانے میں مصروف تھے۔ انھوں نے اپنا تعلق بھی قصور سے بتایا اور کہا کہ وہ عرصہ 18 سال سے موڑھے بنا رہے ہیں ویسے تو کبھی انھوں نے گنتی نہیں رکھی تاہم اس عرصے میں کم و بیش 20 ہزار سے زیادہ موڑھے بنائے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ دکان کے مالک میٹریل یعنی سرکنڈے (بانس سے ملتا جلتا پودا جو سائز میں بہت پتلا اور چھوٹا ہوتا ہے)، سر (اسی پودے سے بننے والے تنکے) اور دیگر میٹریل مزدوروں سے خریدتے ہیں۔ مزدور یہ سب جنگل سے کاٹ کر لاتے ہیں اس کی صفائی کرتے ہیں اور پھرفروخت کرتے ہیں۔
'موڑھا تیار کرنے کے لیے سائز کے لحاظ سے کٹائی کرتے ہیں اور پھر اسے ڈوری سے ایک ایک سرکنڈا جوڑ کر کھڑا کرتے ہیں۔ ایک موڑھا تیار کرنے میں کم از کم چار گھنٹے لگتے ہیں جس کے بعد ریکسین یا کپڑا لگانے والے کا کام شروع ہوتا ہے جو ڈیڑھ سو روپے مزدوری لیتا ہے۔'
انھوں نے بتایا کہ 'ایسا بھی ہوا کہ ایک ڈیرے دار شخص کو دس موڑھے بنا کر دیے تو دس سال بعد وہ واپس آیا اور میرے کام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ دس سال پہلے والے موڑھے ابھی تک اسی حالت میں ہیں۔ اب نئے بنا کر دو ہمیں بہت پسند ہیں۔ میں نے دن رات محنت کرکے ان کو دوبارہ مال تیار کرکے دیا۔'

سرائے عالمگیر میں بارشوں کے موسم میں کام میں تعطل آ جاتا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

اسی دکان میں موجود ایک اور کاریگر محمد بلال نے فینسی شیشے، شو پیس، مہندی والی ٹوکریاں اور ہاتھ کے پنکھے بنانے کے بارے میں بتایا۔
 سرائے عالمگیر سے گزرنے والی ریلوے لائن کے سامنے خالی جگہ اور گھروں کے سامنے موڑھوں اور ان روائتی چیزوں میں استمال ہونے والی اشیا ’ سرکنڈوں، سر‘ اور ’ڈب‘ کے ڈھیر لگے پڑے رہتے ہیں۔
بارشوں کے موسم میں یہاں کام میں تعطل آ جاتا ہے لیکن اس کے علاوہ پورا سال ہر گھر کے کم و بیش تمام افراد یہ اشیا بنانے کے کام میں جتے رہتے ہیں۔ کچھ ’سرکنڈوں‘ (بانس نما پودے) کی چھلائی کرتے ہیں، کچھ مسجدوں کی صفیں بناتے ہیں تو کوئی چیکیں (برآمدوں اور دالانوں کے باہر لگایا جانے والا پردہ)  بناتے ہیں۔ یہ چیزیں تیار کرکے وہ جی ٹی روڈ پر دکانداروں کو تھوک کے حساب سے فروخت کرتے ہیں۔
یہاں موجود ایک بزرگ محمد اکبر نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'ہم انڈیا میں فروزپور رہتے تھے۔ تقسیم کے بعد قصور آئے اور گنڈا سنگھ بارڈر سے ڈب وغیرہ کاٹ کر صفیں اور پھوہڑ بناتے تھے۔ 65 کی جنگ کی وجہ سے قصور چھوڑنا پڑا اور سرائے عالمگیر آکر ڈیرے ڈالے۔
 ان کا کہنا تھا کہ بھٹو دور میں انہیں یہاں گھر بنانے کے لیے  پانچ پانچ مرلے زمین الاٹ ہوئی تھی جس کے بعد وہ یہاں مستقل طور پر مقیم ہو گئے۔

 محمد اکبر کو اپنا ہنر ڈوبتا نظر آ رہا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

'ہم گھر کے سارے افراد یہی کام کرتے ہیں۔ بڑے سرکنڈے اور ڈب کاٹ کر لاتے ہیں۔ چھوٹے صفائی کرتے ہیں۔ پھوہڑ بناتے ہیں، چیکیں بناتے ہیں اور سرکیاں تیار کرتے ہیں۔ آٹھ سال کی عمر کے بچے سے لے کر ساٹھ ستر سال کے بوڑھوں تک سب یہی کام کرتے ہیں۔ اب چونکہ صفوں کا کام ختم ہوتا جا رہا ہے تو ساتھ میں مستریوں کے ساتھ مزدوری بھی کرنا پڑ جاتی ہے۔'
تاہم زمانے کی بدلتی روایات اور ضروریات کے تحت محمد اکبر کو اپنا ہنر ڈوبتا نظر آ رہا ہے۔  
۔’ہماری ساری عمر یہی کام کرتے گزر گئی ہے۔ وقت بدلنے کے ساتھ موڑھوں کی جگہ پلاسٹک کی کرسیوں نے لے لی ہے جبکہ صفوں کی جگہ کارپٹ اور چٹائیاں آگئی ہیں۔  وسائل اور علم کی کمی کے باعث ہم اپنے روائتی کام کو زیادہ جدت بھی نہیں دے سکے۔ اس لیے ہمیں مستقبل قریب میں یہ کام معدوم ہوتا نظر آتا ہے۔'

شیئر: