Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاحتی مقامات ڈھونڈتا بزنس مین

جب 1997 میں یاسین چوہدری لاہور سے اپنے آبائی علاقے چکوال منتقل ہوئے تو ان کا بنیادی مقصد اپنے شہر میں رہ کر کاروبار کو فروغ دینا تھا۔
بچپن سے لاہور میں مقیم رہنے کی وجہ سے انہیں اپنے شہر اور اس کے ماحول کی بہت یاد ستاتی تھی،  جب 28 سال کی عمر میں وہ یہاں واپس آئے تو ان کی اپنے علاقے سے انسیت مثالی تھی، اور انہیں یہاں کی ہر شے دلفریب معلوم ہوتی تھی۔
اسی محبت میں وہ اپنے علاقے کا چپہ چپہ کھوجنے کے لیے اس کی وادیوں، پہاڑوں، جنگلوں اور بیابانوں میں گھومنے لگے۔ اور گھومتے گھومتے انہوں نے یہاں لاتعداد قدرتی حسین مقامات دریافت کیے۔

 

اپنے سفر کے دوران انہیں یہاں ایسے نایاب مقامات اور قدرتی تخلیقات ملیں جو ان کے بقول دنیا میں کہیں نہیں پائی جاتیں۔
انہوں نے ان مقامات اور تخلیقات، چرند پرند، درخت، پودے، آبشاریں، وادیاں، پہاڑ، جھیلیں، سبزہ زار اور دریاؤں کی تصویریں بنا کر سوشل میڈیا پر جاری کرنا شروع کیں تو نہ صرف یہ کہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں سیاحت کے شوقین افراد اس طرف متوجہ ہوئے بلکہ صوبہ پنجاب کے محکمہ سیاحت اور ٹورازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب (ٹی ڈی سی پی) نے بھی چکوال کو ایک سیاحتی ضلع قرار دے دیا۔
یاسین چوہدری کی ان کوششوں کی بدولت محکمہ سیاحت نے ضلع چکوال کو ’ڈسٹرکٹ آف لیکس‘ یعنی جھیلوں والا ضلع قرار دیا اور اس کے ایک درجن سے زیادہ مقامات کو اپنے سیاحتی نقشے پر شائع کیا۔
یاسین چوہدری اپنی کوششوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ چکوال میں کچھ خوبصورت مقامات ایسے ہیں جن کے بارے میں پہلے کوئی نہیں جانتا تھا۔

چوہدری یاسین کے مطابق چکوال میں کچھ خوبصورت مقامات ایسے ہیں جن کے بارے میں پہلے کوئی نہیں جانتا تھا (فوٹو: اردونیوز)

’کچھ جگہیں تو ایسی تھیں جو بالکل پہلے کسی کو پتہ ہی نہیں تھی، نام بھی ان کو ہم نے دئیے۔ لیکن  کچھ جگہیں ایسی تھیں جو موجود تو تھیں لیکن اس سے پہلے کبھی سامنے نہیں آئی تھیں، کسی نے ان کی تصویر نہیں بنائی۔ اس میں لاتعداد جگہیں ہیں، کچھ جھیلیں تھیں۔ ایک بہت ہی خوبصورت ہماری (جھیل) ایک پہاڑوں میں، پیدل جانا پڑتا ہے تھوڑا سا۔ اس کو ہم نے ’لیک سلیپنگ بیوٹی‘ کا نام دیا۔ وہ بھی چشموں کی ایک جھیل ہے، سبز سے پانی کی پیالہ نما، اسی طرح ایک اور جھیل تھی اس کو ہم نے ’پرل ویو جھیل‘ کا نام دیا۔‘
یاسین چوہدری کا معمول ہے کہ وہ صبح سویرے اٹھتے ہیں اور فجر کی نماز کے بعد اپنی جیپ نکال کر’ٹارگٹڈ‘ علاقے میں چلے جاتے ہیں۔ وہاں اپنے دوست اور فوٹو گرافر اختر عباس کے ساتھ مل کر پسندیدہ مقامات اور حیاتیات کی تصاویر بناتے ہیں اور واپس آ جاتے ہیں۔
دن بھر وہ اپنے ریستورانوں  اور تعمیرات کے کاروبار اور دوسرے کام دیکھتے ہیں، اور سورج غروب ہونے سے پہلے پھر کسی ایسے ہی مقام پر جا کر تصویر کشی کرتے ہیں۔ پھر وہ اپنے کام سے فرصت نکال کر ان تصاویر اور ویڈیوز کے ساتھ کیپشن لگا کر اپنے فیس بک پیج پر اور سوشل میڈیا کانٹیکٹس کے ساتھ شیئر کر دیتے ہیں۔
یاسین چوہدری نے 2013 میں ’چکوال الٹی میٹ ٹورازم ایکسپرٹس‘ (کیوٹ) کے نام سے ایک فیس بک پیج بنایا تھا جس پر وہ تمام خوبصورت مقامات کی تفصیلات جاری کرتے ہیں۔

یاسین چوہدری کی کوششوں کی بدولت محکمہ سیاحت نے ضلع چکوال کو ’ڈسٹرکٹ آف لیکس‘ قرار دیا (فوٹو: فیس بک)

اسی پلیٹ فارم کی وجہ سے یہ مقامات ملک بھر اور بیرون ملک بھی مقبولیت حاصل کررہے ہیں۔ اور لوگ دنیا بھر سے انہیں فون کر کے یہاں سیاحت کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔

شمالی علاقوں کے متبادل سیاحتی مقامات

یاسین چوہدری کے مطابق چکوال میں سیاحت کا بہترین موسم اکتوبر سے اپریل ہوتا ہے جب ملک کے دیگر سیاحتی علاقوں بالخصوص شمالی علاقوں میں شدید سردی کے باعث ہر کسی کا وہاں جانا ممکن نہیں ہوتا۔
پھر لاہور اور اسلام آباد کے وسط اور موٹروے پر واقع ہونے کے باعث چکوال کا جغرافیہ اس کو ایسے سیاحوں کے لیے بھی انتہائی موزوں بناتا ہے جو اس موسم میں کہیں دور نہیں جانا چاہتے۔

’سیاحت کی مختلف شاخیں ہیں، مذہبی سیاحت، بوٹانیکل سیاحت، سروائیول ٹورازم، جیپنگ، ٹرینکگ اور پتہ نہیں کتنی قسمیں، تو میرا خیال، بلکہ اب تو جو ماہرین ہیں ان کا بھی یہ خیال ہے کہ چکوال شاید دنیا کا واحد خطہ ہے، جہاں پر سیاحت کی تمام سرگرمیاں اور تمام شاخیں اپنے پورے عروج کے ساتھ موجود ہیں۔‘

’یہاں چہل ابدال ایک ایسی دلچسپ جگہ ہے جہاں پر اگر آپ جائیں تو میرا خیال ہے کہ کشمیر کی اور مری کی ساری خوبیاں یا آپ کی وہاں جانے کی ساری خواہشات وہ وہاں پوری ہو جاتی ہیں۔ یہ پہاڑی چوٹی ہے پنجاب میں مری کے علاوہ (باقی صوبے میں) تیسرے نمبر کی اونچی چوٹی ہے۔ اس طرح جھیلیں ہیں کچھ۔، دھرابی جھیل، پچاس مربع کلومیٹر بہت بڑا واٹرریزروائر ہے۔ یہاں واٹر سپورٹس ہو سکتی ہیں۔ پاکستان میں کراچی سے لے کر پشاور تک ہمارے پاس واٹر سپورٹس صرف خان پور (ڈیم) میں ہے وہ بھی اب محدود ہو رہی ہیں دن بدن۔ لیکن یہ جگہ واٹر سپورٹس کا مرکز بن سکتی ہے۔‘

یاسین چوہدری کے مطابق چکوال میں سیاحت کا بہترین موسم اکتوبر سے اپریل ہوتا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

یاسین چوہدری کا دعوٰی ہے کہ انہوں نے سات سال کے عرصے میں تین سو سے زائد سیاحتی مقامات دریافت کیے ہیں۔

’میرا ابھی بھی یہ ماننا ہے کہ جتنی آبشاریں یا جتنی جگہیں ہم لوگوں نے ڈھونڈیں، اس میں شاید ہم نے پانچ فیصد بھی نہیں ڈھونڈیں۔ آرکیالوجی سائٹس یہاں پر اتنی بڑی بڑی ہیں کہ شاید اگر ان پر محنت کی جائے تو واقعی موہن جو دڑو پیچھے رہ جائے گا۔‘

پتھروں کا باغ

 یاسین چوہدری نے ’اردو نیوز‘ کو چکوال  میں ایک سڑک پر تقریبا چالیس کلومیٹر کے علاقے کا سفر کروایا جو چکوال شہر سے شروع ہو کر اس کی تحصیل چوآ سیدن شاہ کے نواحی دیہات تک مشتمل تھا۔ اس سفر میں دو بڑی جھیلیں، دو تاریخی قلعے جو صدیوں پرانے ہیں، وائلڈ لائف اور پرندوں کے درجنوں مسکن، کئی وادیاں، گھنے جنگل، چشمے اور متعدد سر سبز پہاڑیاں دیکھنے کو ملیں۔
یہ سفر ایک ایسی جگہ پر ختم ہوا جہاں ایک گاؤں کے قریب  ہموارکھیتوں کے بیچوں بیچ کئی کلومیٹر تک پھیلا ہوا ایک ’پتھروں کا باغ‘ تھا۔
اس جگہ کو ’پتھروں کا باغ‘ کا نام یاسین چوہدری اور ان کے ساتھیوں نے دیا ہے کیونکہ ان کے مطابق اس سے پہلے اس جگہ کو کسی نے سیاحتی نقطہ نظر سے نہیں دیکھا تھا۔ بعد ازاں محکمہ سیاحت نے بھی سرکاری طور پر اس مقام کو اسی نام سے اپنے نقشے میں شامل کیا ہے۔
اس مقام کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کئی کلو میٹر تک سفید رنگ کے پتھر پھیلے ہوئے ہیں جن کے اندر جنگلی زیتون کے خود رو پودے اگے ہوئے ہیں اور نیچے گھاس ہے۔ یہاں درجہ حرارت دوسرے قریبی مقامات سے کئی درجے کم ہوتا ہے اور سبز و سفید رنگ کے درخت اور پتھر ایک خوبصورت منظر تخلیق کرتے ہیں۔

یاسین چوہدری سیاحتی مقامات کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے حکومتی کارکردگی سے مطمئن نہیں (فوٹو: پکسابے)

’یہ سٹون گارڈن ایسی ایک جگہ ہے جس کے اگر آپ دائیں بائیں دیکھیں تو بالکل کھیت ہیں جو کاشت ہو رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک بڑی بیچ میں منفرد جگہ ہے، یہ جنگلی زیتون کے درخت ہیں، جن ساروں کا قد بھی ایک جتنا ہے۔ اور یہ پتھر بھی اسی طرح سارے مخصوص جگہ پر ہیں۔ تو یہ بھی ایسے ہی ہم ایک دفعہ گھومتے گھومتے یہاں پہنچ گئے۔ تو ہم نے اس کو پھر نام سٹون گارڈن دیا۔‘
لیکن یاسین چوہدری سیاحتی مقامات کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے حکومتی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سیاحت کو فروغ دینے کے دعوؤں کے باوجود حکومت نے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔
’ہم نے آٹھ نو منصوبے دیے تھے وزیر صاحب کو، پچھلی حکومت کو بھی، اور اس حکومت کو بھی، جس میں ہم نے ان کو واٹر سپورٹس کے کچھ منصوبے دیے تھے۔ لیکن حکومت ابھی بھی  کام نہیں کر رہی۔ جیسا کہ وہ ہوتا ہے کہ سرمایہ کاری ہوتی ہے جیسا کہ دوسرے شعبوں میں کرتے ہیں اس طرح شاید کسی بھی سطح پر ٹورازم میں نہیں ہو رہی۔‘

شیئر: