Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میری بیٹی سے ملیے جس نے ساڑھی کے بہاؤ کو ٹرینڈ کروا دیا‘

ہوپ ڈانسر ایشنا کُٹی کے 'گیندا پھول' گیت پر رقص کو بہت پذیرائی ملی۔ فوٹو: فری پک
انڈیا میں کسانوں کی ہڑتال، کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور بالی وڈ میں منشیات کی خبریں شہ سرخیوں میں نظر آ رہی ہیں لیکن چند ایسی خبریں بھی ہیں جو آپ کی دلچسپی کا باعث ہو سکتی ہیں۔
آئیے ایسی ہی چند خبروں پر نظر ڈالتے ہیں:
ہولا ہوپ ویسے ہی ایک مشکل فن ہے کیونکہ آپ رِنگ کو اپنی کمر سے گردش کے اصول کے تحت سنـبھالتے ہیں لیکن جب یہ کام ساڑھی میں کیا جائے تو اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
ان دنوں انڈیا کی ہوپ ڈانسر ایشنا کُٹی کا 'گیندا پھول' گیت پر رقص سوشل میڈیا پر بہت پذیرائی حاصل کر رہا ہے۔ 
ایشنا نے اپنی یہ ویڈیو جمعرات کے روز انسٹا گرام پر پوسٹ کی جہاں سے وہ فوری طور پر ٹوئٹر پر آ گئی اور جمعے کے روز ان کی والدہ اور صحافی چترا ناراین نے اسے پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’صبح بہت سے لوگوں نے مجھے یہ ویڈیو واٹس ایپ پر بھیجی۔ میری بیٹی سے ملیے جس نے ساڑھی کے بہاؤ کو ٹرینڈ کروا دیا ہے۔‘
23 سالہ ایشا کو مہرون یعنی گہرے قرمزی رنگ کی ساڑھی پہنے سنیکرز کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے اور ہولا ہوپ کے ساتھ وہ ’دلی 6‘ کا گیت ’سسرال گیندا پھول‘ پر انتہائی اطمینان کے ساتھ رقص کر رہی ہیں۔
رچنا کنور نامی ایک صارف نے اس رقص کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا: ’جب ساڑھی، سپورٹس شوز اور گیندا پھول ملتے ہیں تو اس طرح کا عجیب و غریب مزا پیدا ہوتا ہے۔ دن کے استقبال کے لیے ایک پرفیکٹ ویڈیو۔‘
وبائی مرض کورونا نے انڈیا کی معاشی حالت اس قدر ابتر کر دی ہے کہ ساہتیہ اکیڈمی یوا پرسکار یعنی انڈیا کا نوجوانوں کے لیے ادب کا سب سے معزز ایوارڈ جیتنے والے ایک ناول نگار کھیت پر مزدوری کا کام کرنے کے لیے مجبور ہو گئے ہیں۔
32 سالہ نوناتھ گورے کبھی کالج میں گھنٹے کے حساب سے لکچر دیا کرتے تھے۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق مہاراشٹر کے احمد نگر میں ان کا کالج تھا جو کورونا کی وجہ سے عارضی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
گورے کو ان کے پہلے ہی ناول ’فساتی‘ کے لیے ایوارڈ دیا گیا تھا۔ وہ مراٹھی زبان و ادب پڑھاتے ہیں۔ مارچ میں کالج بند ہونے کے بعد وہ اپریل سے 400 روپے یومیہ اجرت پر مزدوری کر رہے ہیں۔ گذشتہ دو سال میں انھوں نے لکچر سے جو کمایا تھا تھا وہ ختم ہو چکا ہے۔

 کورونا کے باعث انڈیا کے شہریوں کی مالی حالت بے حد متاثر ہوئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ان کے والد کا فروری میں انتقال ہو گیا اور ان کے کندھوں پر والدہ اور ایک معذور بھائی کی ذمہ داری آ گئی۔ گورے نے کہا کہ جب ان کے لیے اخراجات اٹھانا مشکل ہو گیا تو وہ اپنے آبائی گاؤں نگڈی لوٹ آئے۔
انھوں نے بتایا: ’جب مجھے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملا تو مجھے کالج میں نوکری مل گئی لیکن وہ مستقل نہیں ہے۔ میں دس ہزار روے ماہانہ کماتا تھا۔ لیکن مجھے تنخواہ ملنی بند ہوگئی کیونکہ مجھے گھنٹے کی بنیاد پر پیسے ملتے تھے۔ نگڈی میں کسی کام کے ملنے کے امکانات زیادہ تھے اس لیے یہاں چلا آيا۔‘
وہ کھیتی باڑی سے متعلق کام کی تلاش کے لیے 25 کلو میٹر کے دائرے کا چکر لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آدھے دن کا 200 روپیہ مل جاتا ہے جبکہ پورے دن کی مزدوری 400 روپے ہوتی ہے۔ لیکن مون سون کی بارشوں کے سبب ہمیشہ کام بھی نہیں ملتا۔
اب جب مون سون کی بات آ گئی ہے تو یہ بتا دیں کہ سوموار کے روز ممبئی میں ایک کار کے نیچے سے ایک اژدہے کو بچایا گیا ہے۔ 
اطلاعات کے مطابق اس بڑے سے اژدہے نے ممبئی میں تھوڑی دیر کے لیے ٹریفک جام کر دیا تھا۔ محکمۂ جنگلات کے افسر سوسانت نندا نے اس کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا: ’مون سون میں سانپ گاڑیوں میں گھس سکتے ہیں۔ اس لیے ذرا ہوشیار رہیں۔‘
شہر میں اتنے بڑے سانپ کی موجودگی پر سوشل میڈیا میں گرما گرم بحث جاری ہے۔ سانپ کی لمبائی تقریباً 10 فٹ بتائی جا رہی ہے۔
خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق سانپ کی وجہ سے مضافاتی علاقے چونا بھٹی کی شاہراہ پر ٹریفک جام ہو گیا اور لوگ اتنے بڑے سانپ کو دیکھنے کے لیے اپنی گاڑیوں سے اتر پڑے۔

شیئر: