Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’فاطمہ جناح زندہ باد‘

کیپٹن (ر) صفدر کو مزار قائر پر نعرے بازی کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ فوٹو ٹوئٹر
مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے ہوٹل کے کمرے کا تالا توڑ کر کیپٹن صفدر کی ہنگامی گرفتاری کی وجہ یہ بتائی گئی کہ انہوں نے قائد کے مزار پر ’فاطمہ جناح ۔ زندہ باد‘ اور ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے لگائے۔
شنید یہ ہے کہ اس سے بہت سے سیاسی مبصرین کے جذبات مجروح ہوئے۔ ملی جذبات سے شرابور یہ مبصرین کہتے ہیں کہ اس عمل سے قائد کی روح تڑپ گئی ہو گی۔ ان کے نظریات کو ٹھیس پہنچی ہو گی۔ ان کی تعلیمات کو نقصان پہنچا ہو گا۔ گرفتاری کی وجہ بھی یہی بتائی گئی۔ 
سوچا جائے تو کیا قائد کے مزار پر نعرہ لگانا جرم ہو سکتا ہے؟ وہ شخص جس نے ہمیشہ جمہوریت کی راہ اپنانے کا مشورہ دیا، آئین کی عظمت کا درس دیا۔ صرف ایک نعرے سے اس کی روح کو کیسے گزند پہنچ گئی ہو گی اور نعرہ بھی اس کی اس عظیم بہن کے حق میں جسے مادر ملت کہتے ہماری زبان نہیں تھکتی۔
جس کے دن مناتے ہم تمام ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو انہی کی تقلید کا مشورہ دیتے ہیں۔ جس کی انتھک محنت، بھائی سے بے مثال محبت اور تحریک پاکستان کی جدوجہد ہمارے لیے مثالی رہی۔ اس بہن کے حق میں نعرہ مزار قائد کو کیا نقصان پہنچا سکتا تھا؟ 
وہ قائد بزرگ جس نے اداروں کو اپنی حدود میں رہنے کا حکم دیا۔ انہیں واشگاف الفاظ میں بتایا کہ تمہارا کام خدمت ہے۔ اس قائد محترم کے مزار پر نعرہ لگانا جرم کیسے ہو گیا۔ گناہ کیسے بن گیا؟ 
مجھے سمجھ نہیں آئی کہ ہم قائد کے مزار کو کیا بنانا چاہتے ہیں۔ کیا ہماری خواہش ہے کہ یہاں جمہوریت کے درس کے بجائے جمعراتوں کی دیگیں تقسیم کی جائیں، یہاں تعویذ گنڈے کا کاروبار ہوں؟ کیا یہاں بلیک کی کمائی کو سفید کرنے والے سیٹھوں کی طرف سے لنگر تقسیم کیا جائے؟ پھول کی پتیوں اور اگر بتیوں کا غیر قانونی کاروبار کیا جائے؟ مزار قائد پر سجدے کیے جائیں؟ قوالی کی محفل جمائی جائے؟ فقیروں میں کھانا تقسیم کیا جائے؟ 

پی ڈی ایم کے جلسے سے پہلے مریم نواز نے مزار قائد پر حاضری دی تھی۔ فوٹو ٹوئٹر

قائد کا مزار ایک علامت ہے۔ جمہوریت کی علامت۔ پاکستان کے ظہور کی علامت۔ اتحاد، تنظیم اور ایمان کی علامت۔ تحریک پاکستان کی جاں گسل کاوشوں کی علامت۔ ایسے مزار دھاگے باندھنے کے لیے نہیں ہوتے، غلامی کی زنجییریں توڑنے کے لیے ہوتے ہیں۔ قفس سے رہائی کے لیے ہوتے ہیں۔ نئے جہانوں کی، نئے امکانوں کی۔ جمہوریت کی، جمہور کے حق رائے دہی کی علامت ہوتے ہیں۔
ایسے مقام تاریخی ہوتے ہیں کہ ان میں مدفون شخصیات تاریخ کا دھارا موڑ چکی ہوتی ہیں۔ غاصبوں کو شکست دے چکی ہوتی ہیں۔ ایسی تاریخی نشانیوں میں کوئی فرد نہیں ایک تاریخ دفن ہوتی ہے اور جب کوئی ایسے مقام پر ووٹ کی عزت کا مطالبہ کرتا ہے تو وہ تاریخ زندہ ہوتی ہے۔ وہی جذبہ جاگتا ہے۔ وہ زنجیریں ٹوٹتی ہیں۔ 
فاطمہ جناح سے جن کو بیر تھا اس گرفتاری سے پتہ چلا کہ یہ بیر اب بھی قائم ہے۔ اب بھی اس کمزور جسم کی عورت کی آواز کا خوف بہت سے دلوں پر ہیبت طاری کرتا ہے۔ اب بھی اس کی دور ایوب میں ہمت بہت سوں کو خوفزدہ کرتی ہے۔ اب بھی آمریت سے لڑنے والی قائد کی ہمشیرہ کی کہانی سے لوگ جان چھڑاتے ہیں۔
اب بھی انہیں وہ الیکشن یاد آتا ہے جس میں فاطمہ جناح کی ریڈیو پر تقریر پر پابندی تھی۔ جس میں ان کو انڈین ایجنٹ قرار دیا گیا تھا۔ کیونکہ ایک ڈکٹیٹر نے دس سالہ کامیابی کا جشن منانا تھا۔ یہ جشن ایک سال منایا گیا۔ اس دس سالہ دور کی اتنی تعریف کی گئی کہ لوگوں کو اس کے ذکر سے قے آنے لگتی۔  

کیپٹن صفدر کی گرفتاری پر پولیس حکام نے چھٹی کی درخواست دے دی تھی۔ فوٹو ٹوئٹر

آئین شکن لوگ کسی بیانیے کو پہلےتسلیم کرتے تھے نہ اب جمہورکی بات مانتے ہیں۔ انہیں قائد کے مزار کی حرمت کا اتنا خیال ہے کہ اسی قائد کی بہن کے حق میں نعرے انہیں ناگوار گذرتے ہیں۔ پولیس کے سربراہ کو اغوا کرتے ہیں۔ اس کو حبس بے جا میں رکھتے ہیں اور نعرہ لگانے والے کے خلاف ایف آئی آر درج کروا کر ہی اٹھتے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس بات سے کتنی جگ ہنسائی ہوئی۔ کتنے داغ آئین کے سینے پر لگے۔ ایمان اتحاد اور تنظیم کی جڑیں کتنی کھوکھلی ہوئیں۔
بس ان کا مدعا یہی ہے فاطمہ جناح کا نام کوئی نہ لے۔ ان کی جرات کو کوئی سلام نہ کرے۔ ان کے حوصلے کی کوئی داد نہ دے۔ ان کی جمہوریت پسندی کو کوئی سلام نہ کرے۔ 
بہانہ یہ بنایا جاتا ہے کہ ان نعروں سے قائد کے مزار کے تقدس پر حرف آئے گا۔ کہنے والوں نہ یہ کبھی نہیں سوچا کہ جب آئین کو توڑا جاتا ہے تو قائد کی روح کتنی فسردہ ہوتی ہوگی؟
جب پی ٹی وی کی دیواریں پھلانگیں جاتیں ہیں تو قائد کی روح کس ماتم سے گذرتی ہوگی؟ جب الیکشن میں جھرلو پھرتا ہو گا تو جس شخص نے پاکستان ایک نظریے کی بنیاد پر تخلیق کیا اس کی روح کتنی پژمردہ ہوتی ہوگی؟
جب سرکاری افسسران کا اغوا کیا جاتا ہو گا، جب صحافیوں کی زبانوں پر تالے لگائے جاتے ہوں گے تو قائد کی روح کس کرب سے گذرتی ہو گی؟ جب جمہوریت کے خلاف صف آرائی ہوتی ہوگی تو قائد کے افکار اور نظریات کی کتنی تضحیک ہوتی ہو گی؟

بلاول بھٹو نے گرفتاری کے واقعے کی سخت مذمت کی تھی۔ فوٹو اے ایف پی

 یہ معاشرہ اب دو واضح حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ ایک وہ ہے جو قائد کے مزار پر فاطمہ جناح کے حق میں نعرے کے خلاف ہیں اور ایک وہ ہیں جو فاطمہ جناح زندہ باد کے نعرے لگانے پر مصر ہیں۔ ایک وہ ہیں جو ایوب کے مارشل لاء کی یادگار ہیں اور ایک وہ ہیں جو فاطمہ جناح کے حوصلے کے طرف دار ہیں۔
اس دور میں فاطمہ جناح ایک ڈکٹیٹر سے زیادہ مقبول تھیں آج بھی ان کے نام کا نعرہ طاقت کے ایوانوں میں زلزلہ بپا کرتا ہے۔ اب مسئلہ شاید یہ ہے فاطمہ جناح زندہ باد کے نعرے لگانے والے بہت کثرت سے ہوگئے ہیں۔  

شیئر: