Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں حیران کن آتش فشاں پہاڑ اور ان سے جڑے دلچسپ قصے

شمال مغرب سے جنوب تک پھیلے ان آتش فشاں پہاڑوں کی تعداد 2000 ہزار سے زیادہ ہے: فائل فوٹو پکسابے
22 لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبے پر پھیلی سعودی سرزمین کی اولین وجہ شہرت یہاں حرمین شریفین کی موجودگی ہے۔ دوسرا امتیاز دنیا کا دوسرا سب سے بڑا صحرا ’ربع الخالی‘ ہے جس کا عبور کیا جانا آج بھی کارنامہ شمار کیا جاتا ہے۔
اس سرزمین کا تیسرا اعجاز تیل کے وافر ذخائر ہیں جنہوں نے آل سعود کی زیرنگرانی ملک کو ایک جدید ریاست بنانے میں بنیادی کردارادا کیا ہے۔
یہ وہ زمینی حقائق ہیں جن سے عام طور پر لوگ واقف ہیں مگر جس حقیقت سے کم لوگ آگاہ ہیں وہ یہ ہے کہ سعودی عرب میں دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ آتش فشاں پہاڑ پائے جاتے ہیں۔
اس ملک کے شمال مغرب سے جنوب تک پھیلے ان آتش فشاں پہاڑوں کی تعداد 2000 سے زیادہ ہے۔ ان میں سے 18 آتش فشاں پہاڑ اپنے غیرمعمولی حجم کے اعتبار سے قابل ذکر ہیں۔
ان آتش فشاں پہاڑوں کو اپنی بناوٹ اور عجیب وغریب رنگوں‌ کے اعتبار سے خاص انفرادیت حاصل ہے۔ مقامی سطح‌ پر انہیں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ انہیں‌ المقرات، زطرہ، العقبات، الغضبا، حصینہ اور الصفاۃ کے نام دیے گئے ہیں۔
دنیا میں درج ذیل تین طرح کے آتش فشاں پائے جاتے ہیں:

مدینہ منورہ کے جنوب مشرق میں حجاز کے علاقے میں واقع ’حرّہ رھاط‘ میں آتش فشاں پھٹنے کا آخری واقعہ سنہ1256 میں پیش آیا تھا: فائل فوٹو ’حرّہ رھاط‘

زندہ آتش فشاں، خفتہ یا خوابیدہ آتش فشاں اور مردہ آتش فشاں۔ سعودی عرب میں آتش فشاں پہاڑوں کی یہ تینوں اقسام موجود ہیں۔ ماہرین ارضیات کے مطابق گذشتہ ساڑھے چار ہزار سال میں یہ آتش فشاں 13 بار لاوا اُگل چکے ہیں۔
یعنی ہر 346 سال میں ایک بار ان پہاڑوں میں انفجار ہوا ہے۔ اس آتش فشانی کے آثار میلوں تک پھیلے ہوئے لاوے کی صورت میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس لاوے نے زمین کو سیاہ پوش بنا دیا ہے۔ لاوے کی یہ سرزمین شمالاً جنوباً مجموعی طور پر 80 ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔

مدینے کے شمال میں آتش فشاں پہاڑوں کے نام ’جبل بیضا‘ اور ’جیل ابیض‘ ہیں۔ ان دونوں ناموں کا مطلب ’سفید پہاڑ‘ ہے: فائل فوٹو امیزینگ پلینٹ

لاوے کی سرزمین کو عربی میں’حَرَّۃ‘ کہتے ہیں۔ مدینہ منورہ بھی ایسے ہی دو حرّوں کے درمیان گِھری وادی ہے۔ مدینے کے مشرق میں ’حرّۃ واقم ‘ اور مغرب میں’حرّۃالوبرہ‘  واقع ہے ۔ جب کہ یہ دونوں حرّے جنوبی مدینہ منورہ میں کئی حروں سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ حرے، بیاضہ،شوران، اور قریظہ ناموں سے معروف ہیں۔
مؤرخین کے مطابق مدینہ منورہ کے جنوب مشرق میں حجاز کے علاقے میں واقع ’حرّہ رھاط‘ میں آتش فشاں پھٹنے کا آخری واقعہ سنہ 1256 میں پیش آیا تھا۔ یہ آتش فشانی دھماکہ خیز نہیں تھی مگر کم ترنوعیت کے مستقل دھماکوں اور زلزلے کے جھٹکوں نے اہل مدینہ کو دھلا دیا تھا۔

خیبر ہی کی راہ میں ’جبل القدر‘ بھی واقع ہے۔ یہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوجانے والے آتش فشاں پہاڑوں میں سے ایک ہے: فائل فوٹو

مسلسل 52 روز تک بہنے والا یہ لاوا اپنے دھانے سے نکل کر 23 کلومیٹر تک پھیل گیا ۔روایت کے مطابق مدینے کی جانب بڑھنے والے اس لاوے کی تہہ ایک نیزے کی گہرائی (تقریباً تین میٹر) لیے ہوئے تھی۔ یہ لاوا مدینے سے محض 8.2 کلومیٹر کے فاصلے پر پہنچ کر شمال کی طرف مڑ گیا۔
آتش فشاں کے سلسلے میں سب سے بڑے دھانے کا حامل پہاڑ طائف کے نزدیک واقع ہے۔ اس کے دھانے میں بننے والے پیالے کی گہرائی 2400 میٹر تک ہے جب کہ اس کا قطر 2500 میٹر سے زیادہ ہے۔
اس سلسلے کے سب سے خوب صورت اور حیران کرنے دینے والے پہاڑ مدینے کے شمال میں حّرہ خیبر میں واقع ہیں۔ ان دونوں آتش فشاں پہاڑوں کے نام ’جبل بیضا‘ اور ’جیل ابیض‘ ہیں۔ ان دونوں ناموں کا مطلب ’سفید پہاڑ‘ ہے۔
ماہرین کے مطابق ان پہاڑوں نے آخری بار قریب 600 سے 700 قبل مسیح میں لاوا اُگلا تھا، اُس کے بعد سے پہاڑ خاموش ہیں۔ لاوے کے سیاہ پوش میدان میں واقع  ان سفید پہاڑوں کو دور سے دیکھیں تو لگتا ہے گویا پہاڑوں پر برف پڑی ہوئی ہے۔ اپنی منفرد خوبی اور بے مثال خوب صورتی کے باعث یہ پہاڑ سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتے ہیں۔

 سب سے خوب صورت اور حیران کرنے دینے والے پہاڑ مدینے کے شمال میں حّرہ خیبر میں واقع ہیں : فائل فوٹو

خیبر ہی کی راہ میں ’جبل القدر‘ بھی واقع ہے۔ یہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوجانے والے آتش فشاں پہاڑوں میں سے ایک ہے۔ یہ سطح سمندر سے دو ہزار میٹر سے زیادہ بلند ہے۔ ناہموار اور دشوار گزار علاقے میں واقع ’جبل القدر‘ کا دھانہ بھی خاصا گہرا ہے۔ اس پہاڑ پر چڑھنے والے 50 کلومیٹر تک اس کے لاوے کا پھیلاؤ دیکھ سکتے ہیں۔
حرّات کے سلسلوں میں سب بڑا اور عظیم الشان ’حرّہ رھاط‘ ہے۔ 20 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا یہ حرّہ امریکہ و کینیڈا کی سرحد پر موجود ’عظیم جھیلوں‘ میں سے ایک ’جھیل انٹاریو‘ کے برابر ہے۔ اس حرّہ میں 500 سے زیادہ آتش فشاں ہاڑ موجود ہیں۔
آتش فشانی سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے سعودی شہری محمد رشاد حسن مفتی جو ملک عبدالعزیز یونیورسٹی میں ارضیات سائنس فیکلٹی سے وابستہ ہونے کے علاوہ ڈائریکٹر جی آر سی (Geohazards Research Center) کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں، نے ’حرّہ رھاط‘ میں بیس سال تحقیق و جستجو میں گزارے ہیں۔
وہ ’حرّہ رھاط‘ سے متعلق ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ اپنے وزیٹنگ پروفیسر کے ساتھ اس سخت پتھریلی زمین سے گزرنے اور پُرمشقت چڑھائی کے بعد جب اس کے دھانے پر پہنچے تو یہ دیکھ حیران رہ گئے اس سرد پڑجانے والے آتش فشانی پیالے میں ایک بدو لڑکی بکریاں چرا رہی تھی۔ ایسے میں فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کون زیادہ حیران ہے ہم یا بدو لڑکی۔

سعودی عرب میں  دنیا کا دوسرا سب سے بڑا صحرا ’ربع الخالی‘ واقع ہے جس کا عبور کیا جانا آج بھی کارنامہ شمار کیا جاتا ہے: فائل فوٹو

سعودی جیولوجیکل سروے کے ایڈوائزر مہر ادریس کہتے ہیں کہ آتش فشاں سعودی عرب کا سب سے بڑا ’ geohazards ‘ ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک متعدد سرکاری اداروں کے ذریعے زلزلوں کی نگرانی کی جاتی رہی ہے، تاہم  سنہ 2004  میں ایس جی ایس (سعودی جیولوجیکل سروے) کے تحت نگرانی کے اس عمل کو مستحکم اور مربوط کیا گیا ہے۔
مہر ادریس کہتے ہیں کہ سرزمین عرب میں آتش فشاں اور زلزلوں کی ایک لمبی تاریخ ہے لیکن اس سرگرمی کا کوئی حقیقی جامع ریکارڈ نہیں ہے۔ ایسے میں ہم نے اس کام پر خصوصی توجہ دی ہے اور مصر سے یمن تک واقع عرب شیلڈ پر 150 سٹیشنوں کی مدد سے اعداد و شمار اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔
مہر ادریس کے مطابق ہم نے شہر مدینہ کے چاروں طرف زلزلے سے متعلق نگرانی سٹیشنوں کا ایک نیٹ ورک قائم کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہم ایس جی ایس کمیونٹیز کے لیے تعلیمی پروگرام چلاتے ہیں اور زلزلے اور آتش فشاں پھٹنے کی صورت میں شہری دفاع کے تحت ضروری تربیت دیتے ہیں۔
ملک سعود یونیورسٹی میں ارضیات کے پروفیسر ڈاکٹر عبد العزیز بن عبداللہ بن لعبون کے مطابق  سعودی عرب میں آتش فشاں کے دھانے اپنی خوبصورتی میں بے مثال ہیں۔ یہ ایک طرف ارضیاتی سائنس سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اہم ہیں اور دوسری جانب سیرو سیاحت کے شوقین افراد کے لیے بھرپور کشش رکھتے ہیں۔
سعودی عرب کے دس مشہور حّرے درج ذیل ہیں:
حرة البرك، حرة الرھاۃ ، حرة ثنان، حرة خيبر، حرة كشب، حرة لونير، حرة رهاط، حرة عويرض، حرة حطيمة۔
 

شیئر: