Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طائف، حجاز کا پہلا شہر جس کے گرد دیوار بنی

سرزمین حجاز کا یہ شہر چاروں طرف گھومتی دیوار کی نسبت سے  ’طائف‘ پکارا گیا (فوٹو:ٹوئٹر)
’میں اور تُو‘، ’بانگ درا‘ میں اس ایک عنوان کے تحت دو مختلف نظمیں ہیں۔ دوسری نظم نسبتاً زیادہ معروف ہے۔ اس نظم کا ایک شعر ہے: 
کوئی ایسی طرزِ طواف تُو مجھے اے چراغِ حرم بتا 
کہ ترے پتنگ کو پھر عطا ہو وہی سرشتِ سمندری
اس شعر میں لفظ ’طواف، چراغ ، حرم اور سرشتِ سمندی‘ سے بحث کرنے کا وافر مواد موجود ہے۔ پہلے’طواف‘ پر آجائیں کہ یہ لفظ ’الطّوف‘ سے ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے گرد گھومنا اورچکر لگانا ہیں۔ پھر اسی سے لفظ ’الطّائف‘ ہے جو ’چوکیدار‘ کو کہتے ہیں  کہ وہ راتوں کو گلیوں اور بازاروں میں گھومتا اور گشت کرتا ہے۔ اب شہر’طائف‘ کے نام پرغور کریں۔ سرزمین حجاز میں یہ پہلا شہر تھا جس کے گردا گرد حفاظتی دیوار بنائی گئی، یوں اس شہر کو اس کے چاروں طرف گھومتی دیوار کی نسبت سے  ’طائف‘ پکارا گیا۔  
کعبے کے گرد چکر لگانا بھی ’طواف‘ کی تعریف میں داخل ہے۔  
اس سلسلے کا ایک لفظ ’طوّافُون‘ ہے جو گھریلو ملازمین کو کہتے ہیں۔ انہیں ’طوّافُون‘ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ خدمت گزاری کے لیے ان ملازمین کا اندرون خانہ آنا جانا(چکرلگانا) رہتا ہے۔ 
آپ نے خبروں میں ’ثقافتی طائفہ‘ کا لفظ ضرورپڑھا یا سنا ہوگا، یہ طائفہ بھی اسی ’الطوف‘ سے نکلا ہے اور اس کے معنی ’لوگوں کی جماعت، گروہ یا کسی چیز کا ٹکڑا‘ ہیں۔ اس ’طائفہ‘ کی جمع ’طوائف‘ ہے۔ اس لفظ کو آپ نے ترکیب ’طوائف الملوک‘ میں دیکھا ہوگا۔ ایسی حالت یا زمانہ جس میں کسی خاص حکمران کا حکم نہ چلے بلکہ کئی امراء اپنا اپنا حکم چلائیں’طوائف الملوکی‘ کا دور کہلاتا ہے۔ 
ہماری گفتگو کا دوسرا لفظ ’چراغ‘ ہے۔ ایک بڑے عالم مولانا شبلی نعمانی کے مطابق لفظ ’چراغ‘ فارسی زبان سے عربی میں پہنچ کر ’سراج‘ ہوا، پھر اس سے لفظ ’سِرَاجُ اللَّيل‘ بنا جو ’جگنو‘ کو کہتے ہیں۔ عربی میں چراغ کے لیے ایک لفظ ’مصباح‘ بھی آیا ہے۔ ’مصباح‘ کے لفظی معنی ’صباح بنانے والا‘ ہیں۔ 
عربی زبان میں بعض ایسے الفاظ ہیں جو بیک وقت دو متضاد معنی بیان کرتے ہیں۔ ایسے الفاظ کو ’لغت تضاد‘ کا نام دیا گیا ہے۔ مثلاً لفظ ’مولیٰ‘ کو دیکھیں کہ اس کے ایک معنی ’آقا‘ اور دوسرے معنی ’غلام‘ کے ہیں۔ اسی ’لغت تضاد‘ میں لفظ ’حرام‘ بھی شامل ہے جو ’حرم‘ سے نکلا ہے۔ 

جاندار کے قتل پر پابندی کی وجہ سے اس مقام کو ’حرام‘ اور ’حرم‘ کہا گیا۔ فوٹو اے ایف پی

ماہرین زبان کے مطابق ہر وہ بات، چیز یا عمل ’حرام‘ کی تعریف میں داخل ہے جس سے روک دیا گیا ہو۔ 
روک دینے کے معنی کے ساتھ ’مسجد حرام‘  اور ’حدود حرم‘ پر غور کریں تو بات آسان ہوجائے گی کہ انہیں اس لیے ’حرام‘ اور ’حرم‘ کہا گیا یا ’محترم‘ قرار دیا گیا کہ یہاں کسی بھی جاندار کے قتل یا شکار پر رُوک لگا دی گئی۔
اب شراب و رشوت وغیرہ کے’حرام‘ ہونے کو دیکھیں کہ ان چیزوں سے ان کے نجس ہونے کی وجہ سے روکا گیا، یوں یہ ’حرام‘ میں داخل ہیں۔ اب ’حرم‘ کی رعایت سے علامہ اقبال کا ایک پُردرد شعر ملاحظہ کریں: 
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل 
اس شہر کے خوگر کو، پھر وسعتِ صحرا دے 
اب ذکر ہوجائے ’سرشتِ سمندری‘ کا، ’سرشت‘ کے معنی میں ’عادت، خصلت اور فطرت‘ شامل ہیں۔ چوں کہ یہ لفظ اردو میں عام مستعمل ہے اس لیے اس کا سمجھنا مشکل نہیں تھا، مگرلفظ ’سَمَندری‘ کو سمجھنے میں خاصا عرصہ لگا۔ ایک مدت تک اس ’سمندری‘ کو سمندر (بحیرہ) سے متعلق سمجھتے رہے جو ظاہر ہے کہ درست نہیں تھا۔
’سمندر‘ کو قدیم یونانی اور ایرانی ادب میں ’عنقا یا ققنس‘ کا سا مقام حاصل ہے۔ کھود کرید پر پتا چلا کہ ’سَمَندر‘ ایک کیڑا ہے جو آگ میں پیدا ہوتا ہے، آگ ہی اس کی غذا ہے، اگرآگ سے باہر نکلے تو فوراً مر جاتا ہے‘۔ اس کی انہی صفات کے پیش نظر سعدی شیرازی کہہ گئے ہیں: ’سمندر چہ داند عذاب ‌الحریق‘  یعنی سمندر کیا جانے آگ کا عذاب کیا ہوتاہے۔ 

 سمندر‘ کو قدیم یونانی اور ایرانی ادب میں ’عنقا یا ققنس‘ کا سا مقام حاصل ہے (فوٹو انسپلیش)

پانی والا ’سَمَندر‘ سین کے پیش کے ساتھ ’سُمَندر‘ بھی کہلاتا ہے۔ اسے ہندی میں ’ساگر‘ کہتے ہیں، یہ ’ساگر‘ کوزے میں سمٹ آئے تو’ساغر‘ بن جاتا ہے۔ پانی کے ذخائر سے متعلق بعض اوقات کافی ’کنفیوژن‘ ہوجاتی ہے۔ مثلاً جسے اردو میں ’دریا‘ کہتے ہیں وہ ہندی میں ’ندی‘ ہے جیسے ’گنگا ندی‘ یا ’جمنا ندی‘ ، جب کہ اردو میں عام طور سے’ندی‘ کا لفظ جوئے آب یا برساتی نالے کے لیے بولا جاتا ہے جیسے کراچی کی ملیر ندی یا لیاری ندی۔  
دوسری طرف اردو میں ہم جسے ’سمندر‘ کہتے ہیں وہ فارسی میں ’دریا‘ ہے اور اسی رعایت سے ’جھیل‘ کو ’دریا چہ‘ کہا جاتا ہے۔ 
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ جب فارسی میں ’سمندر‘ کو دریا کہتے ہیں تو خود ’دریا‘ کو کیا کہتے ہیں؟  
عرض ہے کہ جسے ہم اردو میں ’دریا‘ کہتے ہیں وہ فارسی میں ’رود‘ کہلاتا ہے جیسے اصفہان کا مشہور’زائندہ رود‘ وغیرہ۔ 

جسے اردو میں ’دریا‘ کہتے ہیں وہ ہندی میں ’ندی‘ ہے۔ فوٹو انسپلیش

اب اس ’آبی کنفیوژن‘ سے متعلق آخری بات اور وہ یہ کہ ہم ’نہر‘ کا لفظ دریا سے کاٹ کر نکالی جانے والی پانی کی شاخ کے لیے استعمال کرتے ہیں، جب کہ عربی میں دریا کو ’نہر‘ بھی کہتے ہیں۔ یعنی جسے ہم ’دریائے فرات‘ پکارتے ہیں وہ عربی میں ’نہر فرات‘ ہے۔ 
چوں کہ یہ سلسلہ دراز ہے اس لیے اسے کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ اب نہر کی رعایت سے منیر نیازی کا پرسوز شعر ملاحظہ کریں اور ہمیں اجازت دیں: 
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو 
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو 
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر: