Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جدہ، دادی اماں کا شہر

شہر کا نام جیم کے زبر کے ساتھ ’جَدَّة‘ ہے، جس کے معنی ’دادی‘ کے ہیں۔ (فوٹو : اے ایف پی)
سفینے ڈوب گئے کتنے دل کے ساگر میں 
خدا کرے تری یادوں کی ناؤ چلتی رہے 
لہروں پہ ڈولتا یہ شعر’حسن اختر جلیل‘ کا ہے۔ استاد کہتے ہیں شعر’بحریات‘ سے بحث کرتا ہے، یقین نہ آئے تو شعر میں موجود لفظ ’سفینہ، ساگر، خدا اور ناؤ‘ پر غورکرلو۔ 
ہم نے اس اجمال کی تفصیل چاہی تو ’بحرِفصاحت‘ میں طوفان آگیا۔ بولے: پہلے ’سفینہ‘ کی سیرکرو۔ یہ عربی لفظ ہے اور اس کے معنی میں ’کشتی اور جہاز‘ دونوں داخل ہیں، ’سفینۂ نوح‘ کی ترکیب اسی جانب اشارہ کرتی ہے۔  
دوسری طرف ’سفینہ‘ بیاض (نوٹ بک) کو بھی کہتے ہیں کہ اس میں اشعاراور ضروری باتیں درج کی جاتی ہیں۔ میرزااسد اللہ خان غالب نے درج ذیل شعر میں’سفینہ‘ کو ہر دو معنی (کشتی اور بیاض) کے ساتھ بہت خوب صورتی سے باندھا ہے: 
ورق تمام ہوا اورمدح باقی ہے 
سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے 
شعر میں ’بحر بیکراں‘ پیش نظررہے تو شعر کا لطف دوچند ہوجاتا ہے، وہ یوں کہ شعرگوئی کے لیے استاذہ نے بحرِرمل، بحرِرجز اور بحرِہزج وغیرہ کے نام سے تقریباً ڈیرہ درجن ’بحور‘ طے کی ہیں۔ شاعرجس ’بحر‘ میں محبوب کا مدح خواں ہے وہ اپنی طوالت کی وجہ سے طے شدہ بحورسے باہرہے اور’ورق‘ میں نہیں سماتی، اس لیے اسے ’بحرِبیکراں‘ قراردیا اوراس کے لیے بجائے ورق کے سفینہ (بیاض) تجویز کیا ہے۔ شعر میں ’سفینہ‘ اوراس کی رعایت سے ’بحر‘میں دونوں معنی پوشیدہ ہیں۔ اصطلاح میں ایسا شعر جس میں ایک سے زیادہ معنی کی گنجائش ہو’ایہام‘ کی تعریف میں آتا ہے۔   
اب ’ساگر‘میں اُترآؤ کہ اس سے متعلق  پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ سنسکرت میں سمندر کو ’ساگر‘ کہتے ہیں۔ اگر ساگربہت بڑا ہو تو کیا کہتے ہیں؟ یہ جاننے سے پہلے ایک سادہ سا اصول سمجھ لو اوروہ یہ کہ ایسا ’اسم‘ جس کے معنوں میں اس کی اصلی حالت کی نسبت بڑائی پائی جائے ’اسم مکبّر‘ کہلاتا ہے۔  
فارسی زبان میں ’اسم مکبّر‘ بنانا ہوتواسم سے پہلے ’شاہ‘ کا اضافہ کرتے ہیں مثلاً راہ سے شاہ راہ، باز سے شاہ باز(شہباز) اورتُوت سے شاہ تُوت (شہتُوت) وغیرہ۔ بالکل ایسے ہی ہندی زبان میں’اسم‘ سے پہلے’مہا‘ لگا کر’اسم مکبّر‘ بناتے ہیں، جیسے راجا سے مہاراجا، رانی سے مہارانی یا منتری (وزیر) سے مہا منتری (وزیراعظم) وغیرہ۔ اسی اصول کے تحت ساگر(بحیرہ/Sea) سے مہاساگر (بحر/Ocean) بنا ہے۔ 
فارسی میں ’خدا‘ کے معنی میں اللہ، پروردگار، خالق، سلطان، بادشاه، امیر، مالک، آقا، صاحب اور استاد شامل ہیں۔ فارسی کی رعایت سے اردو میں خدا، خدائی خدا نخواستہ، خدارا اورخداوند کے الفاظ عام استعمال ہوتے ہیں۔ پٹنہ (انڈیا) کے سلطان اختر کا شعر ہے: 
ہم اپنے آپ میں آزاد ہیں لیکن ’خداوندا‘ 
ہمارے دست و پا میں وقت کی زنجیر کیسی ہے 

جب پانی آگے بڑھتا اور پھیلتا ہے تو اسے ’مد‘ کہتے ہیں اور ’جزر‘ پانی کے اترنے اور پیچھے ہٹنے کو کہتے ہیں. (تصویر : اے ایف پی)

فارسی میں ’ملکیت‘ کے تصور کے ساتھ  لفظ ’خدا‘ کو مختلف نسبتوں میں بھی برتا جاتا ہے،مثلاً دہ خدا (زمیندار)، ھن خدا (میزبان) یا دولت خدا (مالدار) وغیرہ۔ اب اس سلسلے کے ایک لفظ ’ناخدا‘ پر غور کرو کہ اس کے معنی میں’ملاح، مانجھی، کشتی بان اور جہازران‘ داخل ہیں۔ یہ فارسی ترکیب اردو میں بھی رائج ہے۔ علامہ اقبال کہہ گئے ہیں: 
مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے 
کہ جن کو ڈوبنا ہے ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں 
استاد کا ماننا ہے کہ لفظ ’ناخدا‘ کی اصل ’ناؤ خدا‘ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ’ناؤخدا‘ کثرتِ استعمال سے ’ناخدا‘ ہوگیا ہے۔ایک بڑے استاد سید سلیمان ندوی اس ’ناؤ‘ کو انگریزی لفظ ’نیوی‘ کی اصل بتاتے ہیں۔ ’نیوی‘ کو عربی اور اردو میں ’بحریہ‘ کہتے ہیں۔ بحریہ کا سربراہ ’امیرالبحر‘ کہلاتا ہے، جو انگلستان پہنچ کر’ایڈ مرل‘ ہوگیا ہے۔  
بحری سفر میں ستاروں کے طلوع و غروب اور اُن کی ترتیب (formation) کو بہت اہمیت حاصل ہے، عربوں نے فلکیات اوربحریات میں کافی نام کمایا۔ ان کی علمی سرگرمیوں کے نقوش آسمان تحقیق پرآج بھی روشن ہیں۔ برطانیہ کی شاہی رصد گاہ گرینچ (Royal Observatory Greenwich) جہازرانوں کی رہنمائی کے لیے ناٹیکل المناخ (The Nautical Almanac) کے نام سے تحقیقی میگزین شائع کرتی ہے۔ اس میگزین میں مشہور و ممتازستاروں کے نظر آنے کا زمانہ اور آسمان پر دکھائی دینے کا مقام درج ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سمندر کے ’مدوجز‘ سمیت دیگر بہت سی قیمتی معلومات بھی ہوتی ہے۔ 
ذرا اس میگزین کے نام ’ناٹیکل المناخ‘ کے نام پر غور کرو جس کے دوسرے حصے ’المناخ‘ سے واضح ہے کہ اس کا تعلق عرب سے ہے۔ اس میگزین کی ایک اشاعت میں 57 نمایاں ستاروں کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں سے 47 نام عربی الاصل ہیں۔ جن میں سے چند نام درج ذیل ہیں: 
Achernar (آخرالنہر)،Aldearan (الدیران)،Alphard (الفرد)،Alphecca (الفکہ)
،Altair (الطیر)،Betelgeuse (إبط الجوزاء)، Diphda (ضفدع)، Famalhaut (فم الحوت)،Markab (مرکب)،Minkar (منقار)، Suhail (سہیل) اور Vaga(انسر الواقع)۔ 
چاند اور سورج کی کشش کے زیر اثر سمندری پانی کے اتار چڑھاؤ کو ہندی میں ’جواربھاٹا‘ اورعربی میں ’مد وجزر‘ کہتے ہیں۔’مدوجز‘ پرغورکرو تو دلچسپی کے کئی پہلو سامنے جائیں گے۔ 
جب پانی آگے بڑھتا اور پھیلتا ہے تو اسے ’مد‘ کہتے ہیں۔ اب پھیلنے کی رعایت سے عربی زبان کی علامت ’مد‘ پر غور کرو جو درحقیقت ایک ’لہر‘کی صورت میں ہے، یہ علامت جس لفظ پر ہو اس لفظ کو پھیلا کر پڑھتے ہیں۔ 

’نیوی‘ کو عربی اور اردو میں ’بحریہ‘ کہتے ہیں۔ بحریہ کا سربراہ ’امیرالبحر‘ کہلاتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری طرف ’جزر‘ پانی کے اترنے اور پیچھے ہٹنے کو کہتے ہیں، سمندر کے بیچوں بیچ جس مقام سے پانی پیچھے ہٹ جائے اور وہاں زمین نمودار ہوجائے تو اس مقام کو ’جزر‘ کی نسبت سے جزیرہ کہتے ہیں۔ اب جزیرے کی رعایت سے مقبول خاص شاعر ’سعود عثمانی‘ کا ایک خوبصورت شعر ملاحظہ کرو پھر آگے بڑھتے ہیں: 
آنکھوں نے بنا ڈالے ایک بات پہ دھیرے سے 
خشکی کے سمندر میں پانی کے جزیرے سے 
اب جزیرے سے ساحل کی طرف لوٹتے ہیں۔ یوں تو ساحل ’عربی‘ زبان کا لفظ ہے مگرعربی کے ذخیرہ الفاظ میں ساحل کے لیے بہت سے الفاظ میں سے ایک ’جدہ‘ بھی ہے۔ 
سعودی عرب کے مشہور تاریخی و ساحلی شہر’جدہ‘ کی وجہ تسمیہ کے حوالے سے دو مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ ان دونوں میں اعراب (زیر، زبر، پیش) کے ہیرپھیر نے صورتحال کو دلچسپ بنا دیا ہے۔ پہلی رائے کے مطابق یہ شہر ساحل کے کنارے آباد ہے اورعربی میں ساحل کو ’جُدَّة‘ بھی کہتے ہیں لہٰذا اس نسبت سے شہر کا نام ’جدہ‘ پڑگیا۔ 
دوسرے نقطۂ نظرکے مطابق شہر کا نام جیم کے زبر کے ساتھ ’جَدَّة‘ ہے، جس کے معنی ’دادی‘ کے ہیں۔ چوں کہ اس شہر میں کل انسانوں کی ماں حضرت حوا مدفون ہیں، جنہیں ’جَدَّة‘ (دادی) کا درجہ حاصل ہے،اس لیے اس شہر کو ان کی نسبت سے’جدہ‘ پکارا گیا۔ 
شہر کی وجہ تسمیہ سے متعلق دونوں آراء میں وزن ہے، مگر مقامی لوگ شہر کوجیم کے زیر کے ساتھ ’جِدّة‘ پکارتے ہیں۔ اس صورتحال میں ہم اس کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتے کہ : 
یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کر 

شیئر: