Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قلندرزکے سفر میں کبھی طعنے کبھی طنز، لیکن وہ کر دکھایا۔۔

لاہور قلندرز کے پلیئر ڈولپمنٹ پروگرام کے تحت حارث روف جیسا کھلاڑی ملا (فوٹو: اے ایف پی)
لاہور قلندرز کی ٹیم نے اس بار وہ کر دکھایا جو پچھلے چار سال سے نہیں ہوسکا تھا۔ مسلسل چار ایڈیشنز تک پی ایس ایل میں آخری پوزیشن پر آنے کے بعد قلندرز نے اس بار ایسا کم بیک کیا کہ فائنل میں آپہنچے، لیکن وہ اس سے آگے کا سفر طے نہ کر سکے اور کراچی کنگز نے انہیں فائنل میں شکست دے دی۔
لاہور قلندرز کی انتظامیہ کے لیے یہ سفر آسان نہ تھا۔ پہلے ایڈیشن سے 17 نومبر کے فائنل تک اس ٹیم کو، اس فرنچائز کو کبھی کسی طعنے کا سامنا کرنا پڑتا تو کبھی کسی طنز کے نشتر سہنا پڑتے، لیکن عاقب جاوید، ثمین رانا، عاطف رانا کا ٹرائیکا اپنے عزم سے ٹس سے مس نہ ہوا۔
اس ٹیم  کی کارکردگی میں اچانک تبدیلی کا سہرا لاہور قلندرز کے پلیئر ڈولپمنٹ پروگرام کے سر جاتا ہے جس کی بدولت آج نہ صرف لاہور قلندرز  بلکہ پاکستان کرکٹ ٹیم کو بھی حارث روف جیسا کھلاڑی ملا۔ ایک اور کھلاڑی بھی اسی سفر پر گامزن ے جس کا نام دلبر حسین ہے۔
پلیئر ڈولپمنٹ پروگرام ایک منفرد ٹیلنٹ ہنٹ ہے کہ جس کے تحت ملک کے مختلف شہروں میں اوپن ٹرائلز ہوتے ہیں، ہر شہر سے بیس، بیس کھلاڑی منتخب ہوتے ہیں پھر ان کی ٹیمیں بنتی ہیں اور وہ ایک ٹورنامنٹ کھیلتے ہیں جس کو ٹی وی پر براہ راست نشر کیا جاتا ہے۔مزید پڑھیں

 

پھر اس ٹورنامنٹ کے 15بہترین کھلاڑی ڈویلپمنٹ سکواڈ بناتے ہیں جو آسٹریلیا اور دیگر ملکوں کے دورے کرتے ہیں جہاں ان کو بین الاقوامی ایکسپوژر ملتا ہے۔ پھر وہ پلیئرز پی ایس ایل کا بھی حصہ بنتے ہیں۔
ایک مکمل پراسس کہ جس سے گزر کر عام سا کرکٹر سپر اسٹار بن جاتا ہے۔
لاہور قلندرز کے مینجر اور سی او او ثمین رانا کہتے ہیں کہ ان سب کے پیچھے پہلے پی ایس ایل کے پلیئرز ڈرافٹ کے وقت کی صورتحال تھی کہ جب  ایمرجنگ کیٹیگری میں بھی 30 سے 40 سال کے کھلاڑی تھے، اس وقت ہی لاہور قلندرز نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اپنا ٹیلنٹ خود بنانا ہے، اور اس کی بدولت ہی آج سارے مقامی پلیئرز قلندرز کا حصہ بن گئے ہیں۔
پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن میں شریک لاہور قلندرز کی ٹیم میں بھی زیادہ تر پلیئرز ایسے ہی ہیں جو اس کے ڈویلپمنٹ پروگرام کے ذریعے ابھر کر سامنے آئے ہیں، جن میں حارث رؤف کے علاوہ دلبر حسین،  محمد فیضان، معاذ خان اور فرزان راجہ شامل ہیں۔
حتی کہ ان کے کپتان سہیل اختر نے بھی پلیئر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت ہی اپنے کیرئیر کا کم بیک کیا۔ ورنہ وہ تو کب کے کرکٹ چھوڑ چکے تھے۔
لاہور قلندرز کے ہیڈ کوچ اور ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز عاقب جاوید کہتے ہیں کہ  سہیل اختر جب ٹرائلز کے لیے آئے تھے تو فٹنس بہت خراب تھی لیکن انہوں نے اپنے ٹیلنٹ کا بھرپور مظاہرہ کیا جس کے بعد قلندرز نے فیصلہ کرلیا تھا کہ ان کو دوبارہ ایکشن میں لانا ہے۔ آج سہیل اختر لاہور قلندرز کے کپتان ہیں اور ان کی قیادت میں ٹیم فائنل کھیل رہی ہے۔

’انتظامیہ محسوس کرتی تھی کہ سہیل اختر سے بہتر کوئی اور پلیئر کپتانی کی چوائس نہیں ہوسکتا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

سہیل اختر پی ایس ایل کی تاریخ میں ایک منفرد کپتان ہیں جنہوں نے کوئی انٹرنیشنل میچ نہیں کھیلا اور اپنی ٹیم کو فائنل میں لے آئے۔ جب لاہور نے انہیں کپتان مقر ر کیا تھا تو اس وقت کافی سوالات بھی اٹھے تھے کہ ایک غیر معروف کرکٹر کو کس طرح کپتان بنادیا گیا ہے؟
لیکن بہت لوگوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ لاہور قلندرز نے دو سال قبل ابو ظبی میں ایک ٹورنامنٹ جیتا تھا، اس ٹورنامنٹ میں جنوبی افریقا، نیوزی لینڈ ، آسٹریلیا اور انگلینڈ سے ڈومیسٹک ٹیمیں تھیں۔ لاہور قلندرز نے پلیئر ڈویلپمنٹ پروگرام پر مشتمل کھلاڑیوں کی ٹیم بناکر ٹورنامنٹ میں بھیجی۔ اس کے کپتان سہیل اختر تھے اور وہ ٹیم ٹرافی جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔
قلندرز کے چیف آپریٹنگ آفیسر رانا عاطف کہتے ہیں کہ  ’سہیل اختر کو کپتان بنانے کے پیچھے سوچ یہی تھی کہ اس بار زیادہ تر کھلاڑی پلیئر ڈویلپمنٹ پروگرام سے منتخب ہوئے تھے، ان پلیئرز کو سہیل اختر سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔‘
’ سہیل نے نہ صرف ابو ظہبی کپ میں کامیابی دلوائی بلکہ آسٹریلیا کے دورے پر بھی ان پلیئرز کی قیادت کی تھی تو انتظامیہ محسوس کرتی تھی کہ سہیل اختر سے بہتر کوئی اور پلیئر کپتانی کی چوائس نہیں ہوسکتا۔‘

قلندرز نے اس سفر کو طے کرنے کے لیے جو راستہ اپنایا وہ مشکل اور صبر آزما تھا (فوٹو: اے ایف پی)

اور سہیل نے اس انتخاب کو درست ثابت بھی کردیا۔
لاہور قلندرز کے ساتھ کام کرنے والے، اس کے ساتھ سفر کرنے والے اکثر یہ کہتے ہیں کہ لاہور قلندرز کی فرنچائز دیگر ٹیموں سے مختلف ہے جہاں ایک جانب دنیا بھر کی ٹیمیں سیزن کے لیے منتخب 15سٹارز کا سوچتی ہے وہاں قلندرز ایک ایسی فرنچائز ہے جو ان سے بھی آگے کا سوچتی ہے، اس کی نظریں مستقبل کے لیے ایسے کرکٹ سٹارز تیار کرنے پر مرکوز رہتی ہے کہ جو نہ صرف اس فرنچائز بلکہ پاکستان کرکٹ کی بھی خدمت کرسکے۔
قلندرز نے اس سفر کو طے کرنے کے لیے جو راستہ اپنایا وہ مشکل اور صبر آزما تھا لیکن فائنل میں اس کے بلے باز کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکے اور ایک کے بعد ایک کراچی کنگز کے بولرز کے سامنے ڈھیر ہوتے گئے اور یوں قلندرز کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

شیئر: