Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشکل وقت میں قیادت سنبھالنے والی پاکستان کی سیاسی خواتین

فاطمہ جناح کو ایوب خان کے مقابل الیکشن لڑنا پڑا تو اس وقت بھی کوئی سیاستدان طاقتور حکمران کا سامنا کرنے کو تیار نہ تھا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری کے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ملتان میں ہونے والے جلسے میں خطاب سے قومی افق پر ایک اور سیاسی خاتون کی رونمائی ہوگی۔
پیپلز پارٹی کے مطابق بلاول بھٹو کی کورونا کے باعث 30 نومبر کو ہونے والے ملتان کے جلسے میں عدم شرکت کے بعد آصفہ بھٹو پیپلزپارٹی کی نمائندگی کے لیے ملتان آ رہی ہیں۔
  پاکستان کی قومی سیاست میں خواتین کی آمد زیادہ تر حادثاتی یا مجبوری کی شکل میں ہوئی ہے تاہم ان خواتین نے نامساعد حالات میں بھی قیادت کی بھرپور صلاحیت کا مظاہرہ کرکے اپنے ناقدین کو اکثر حیران کیا ہے۔

 

بانی پاکستان محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح کی پاکستان میں جمہوریت کے لیے وقت کے طاقتور فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے ساتھ سیاسی پنجہ آزمائی ہو یا بے نظیر بھٹو کی جانب سے اپنے والد ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد  فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق کے سامنے اپنی پارٹی کی بقا کی جنگ ہو، خواتین نے اس محاذ پر اپنا کردار بخوبی نبھا کر دکھایا ہے۔ ایک اور فوجی دور حکومت میں اپنے خاوند نواز شریف کی گرفتاری کے بعد بیگم کلثوم نواز نے بھی سیاسی مزاحمت کا علم بلند کیا اور اپنے شوہر کی رہائی کی تحریک خاصی کامیابی سے چلائی۔
 اب سوال یہ ہے کیا آصفہ بھٹو اپنی والدہ اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون  وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی سیاسی وراثت کا حق ادا کر سکیں گی؟ اس سوال کا جواب آئندہ آنے والے چند سالوں میں سامنے آجائے گا، تاہم ملتان جلسے میں دلچسپ بات یہ ہو گی کہ دو سابق وزرائے اعظم کی بیٹیاں سٹیج سے مخاطب ہوں گی۔
کیا خواتین سیاستدان زیادہ دلیر ثابت ہوئی ہیں؟
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے لاہور میں مقیم سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا تھا کہ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ ہر مشکل صورتحال میں پاکستان کی خواتین سیاستدانوں نے اپنے کردار کا لوہا منوایا ہے۔
’میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ جب سابق فوجی حکمران جنرل مشرف کے دور میں وزیراعظم نواز شریف کو گرفتار کر لیا گیا تو اس وقت ان کی جماعت کا کوئی فرد احتجاج کے لیے باہر نکلنے کو آمادہ نہیں تھا لیکن یہ بیڑہ ایک خاتون بیگم کلثوم نواز نے اٹھایا۔ اسی طرح نواز شریف جب حال ہی میں مشکلات کا شکار ہوئے تو  ان کی بیٹی مریم نواز نے ان کے بیانیے کو لے کر آگے بڑھنے کی ہمت دکھائی۔‘

مشرف دور میں نواز شریف کی رہائی کے لیے احتجاج کی قیادت بیگم کلثوم نواز نے کی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

سلمان غنی کے مطابق جب60 کی دہائی میں محترمہ فاطمہ جناح کو ایوب خان کے مقابل الیکشن لڑنا پڑا تو اس وقت بھی کوئی سیاستدان طاقتور حکمران کا سامنا کرنے کو تیار نہ تھا۔ ’منتیں کرکے اپوزیشن فاطمہ جناح کو سامنے لے کر آئی۔  گو کہ الیکشن میں فاطمہ جناح کو شکست ہوئی مگر تمام آزاد مبصرین نے اس انتخاب کو دھاندلی زدہ قرار دیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ اسلامی تاریخ میں بھی مسلمان خواتین نے اسی طرح دلیرانہ کردار ادا کیا۔
سلمان غنی کے مطابق بلاول بھٹو کی بیماری کے باعث آصفہ بھٹو اپنے بھائی کی کمی پوری کرنے کے لیے سامنے آئی ہیں تو ان سے بھی امید ہے کہ وہ اپنی والدہ کی طرح اپنا کردار نبھائیں گی۔
قیادت کی صلاحیت کسی صنف سے منسوب نہیں: نسیم زہرہ
سینیئر صحافی نسیم زہرہ کا کہنا ہے کہ گو کہ پاکستانی سیاست میں خواتین سیاستدانوں کا کردار قابل تعریف ہے تاہم قیادت کی صلاحیت کو کسی صنف سے جوڑنا درست نہیں ہوگا۔

نسیم زہرہ کے مطابق مریم نواز ہمیشہ والد کے ساتھ رہیں۔ ان کے بھائی بزنس میں مصروف تھے اس لیے قیادت انہیں کو ملی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئےان کا کہنا تھا کہ جب جب خواتین سیاستدانوں کو چنا گیا تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ہمدردی کے ووٹ کے لیے انہیں جان کر چنا گیا ہو بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ بہتر آپشن اور کوئی نہیں تھا۔
’ جیسا کہ بے نظیر بھٹو کو ان کے والد پہلے ہی سیاست کے لیے تیار کر چکے تھے اور قابلیت ان میں زیادہ تھی اس لیے ان کو چنا گیا اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کی بیگم نسیم ولی خان تھیں۔‘
نسیم زہرہ کے مطابق مریم نواز کے معاملے میں بھی یہی تھا کہ وہ ہمیشہ والد کے ساتھ رہیں۔ ان کے بھائی بزنس میں مصروف تھے اس لیے قیادت انہیں کو ملی۔
انہوں نے کہا کہ فاطمہ جناح اور بے نظیر بھٹو اچھی سیاستدان ثابت ہوئیں مگر بانی پاکستان محمد علی جناح یا ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ قابل کوئی ثابت نہیں ہوا۔
نسیم زہرہ کا کہنا تھا کہ اگر بلاول کورونا کا شکار نہ ہوتے تو شاید ملتان میں آصفہ بھٹو نہ آتیں۔ ’ویسے تو خواتین بڑی بہادر ہوتی ہیں مگر ایسا نہیں ہے کہ قابل مردوں کو چھوڑ کر انہیں چنا جاتا ہے۔ تاہم جب بھی خواتین سیاست میں آئیں انہوں نے سیاسی رہنما کی طرح ہی کردار ادا کیا۔‘

شیئر:

متعلقہ خبریں