Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شمس الرحمٰن فاروقی: ’ادب میں اپنا پختہ نقش چھوڑ گئے‘

شمس الرحمٰن فاروقی ادیب پر کسی حکم یا نظریہ کی پابندی کے خلاف تھے (فوٹو: ٹوئٹر)
ادب سے وابستہ کسی فرد کے بارے میں محض یہ کہہ دیا جائے کہ اس جیسی صلاحیتوں کی حامل شخصیت عصر حاضر میں خال خال ہو گی،  یا ڈھونڈے سے نہ ملے گی، تو یہ کہنا بھی اس کی شخصیت کی بڑائی بیان کرنے کے لیے موزوں ٹھہرے گا۔ لیکن پوری ادبی روایت کے تناظر میں کوئی اس معیار پر اپنا استحقاق ثابت کر دے تو اس کے یگانۂ روزگار ہونے میں مطلق شبہ نہ رہے گا۔
نقاد، افسانہ نویس، ناول نگار، شاعر، مدیر، کلاسیکی متون کے شارح، مترجم، مبصر، ماہر عروض و لغات، یہ وہ حوالے ہیں جو شمس الرحمٰن فاروقی کی شخصیت کے پہلو دار ہونے کے غماز ہیں۔
انہوں نے نصف صدی سے زائد عرصہ اردو کی مختلف اصناف کو باثروت بنایا۔ انہیں اردو ادب کی ان چند شخصیات میں شمار کیا جا سکتا ہے جنھیں زندگی ہی میں لیجنڈ کا درجہ حاصل ہوا۔
وہ تنقید کی طرف آئے تو تھوڑے عرصے میں نقاد کی حیثیت سے توجہ حاصل کر لی۔
ممتاز نقاد محمد حسن عسکری نے لکھا کہ ’آپ کا انداز تحریر اور آپ کا تجزیہ مجھے ہمیشہ سے پسند ہے۔ پاکستان میں تو آپ کی تنقید کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔‘
فاروقی غیر قطعی اور گول مول بات کہنے کو نقاد کے منصب کے منافی جانتے۔ تنقید کا مقصد، ان کی دانست میں معلومات نہیں بلکہ علم میں اضافہ کرنا ہے۔ فن پارے کی کسی تعبیرکو حتمی نہیں سمجھتے، اس لیے کوئی تنقید، ان کے نزدیک حرف آخرنہیں۔ ادیب پر کسی حکم یا نظریہ کی پابندی کے خلاف تھے۔ 
ان کا ایک اہم ادبی کارنامہ کلام میر کی چار جلدوں میں ’شعر شور انگیز‘ کے نام سے شرح ہے جس پر انھیں ہندوستان کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ سرسوتی سمان ملا۔
اردو داستان کے احیا میں انھوں نے تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ داستان امیر حمزہ کی 46 جلدوں کی بیس برس سے زائد عرصہ کھوج اور پھر ان پر تفحص کا ثمرہ ہے کہ انھوں نے ’ساحری، شاہی، صاحبقرانی: داستان امیر حمزہ کا مطالعہ‘ کے نام سے پانچ جلدوں میں اس داستان کا تنقیدی اور تحقیقی مطالعہ پیش کیا۔

مصنف نصیرالدین شاہ اور شمس الرحمٰن فاروقی کے ہمراہ

اردو تنقید میں ان کی کتابوں کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ معروف نقاد شمیم حنفی کے نزدیک ان کی کتاب ’شعر غیر شعر اور نثر‘ اردو تنقید کی اہم ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔
انھوں نے 30 برس کی عمر میں ’شب خون‘ کے نام سے ادبی جریدہ جاری کیا جسے ادبی رسالوں میں ممتاز مقام حاصل ہوا۔ کرشن چندر نے لکھا: ’یقین نہیں آتا کہ یہ رسالہ اردو زبان کا ہے اور ہندوستان سے نکلتا ہے۔‘
ادبی کیریئر کے آخری حصے میں وہ فکشن کی طرف متوجہ ہوئے۔ عمدہ افسانوں کے مجموعے ’سوار اور دوسرے افسانے‘ کے بعد انھوں نے 'کئی چاند تھے سرِ آسماں' ایسا شاندار ناول لکھا جس کا شمار اردو کے بڑے ناولوں میں ہوتا ہے۔ انتظار حسین کے بقول ’مدتوں بعد اردو میں ایک ایسا ناول آیا ہے جس نے ہندوپاک کی ادبی فضا میں ہلچل مچادی ہے۔‘
اس کے بعد ’قبض زماں‘ کے عنوان سے ان کا ناولٹ شائع ہوا۔
ان کی عالی ہمتی کو داد کہ انھوں نے اپنے وقیع تر فکشن کو بزبان انگریزی ترجمہ کر کے اردو دنیا سے باہر اسے روشناس کروایا۔
’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘ کے ’مرر آف بیوٹی‘ کے نام سے ترجمہ کو نوبل انعام یافتہ ترک مصنف اورحان پاموک نے بھی سراہا۔
فکشن نگار کے طور پر پذیرائی سے وہ بہت سرشار تھے کیونکہ ان کے نزدیک تخلیقی کام کی اہمیت اور زندگی کسی بھی دوسرے علمی کام سے زیادہ ہوتی ہے۔
2010 میں وہ پاکستان آئے تو ان سے میں نے جو انٹرویو کیا اس میں ان کے ناول پر قدرے تفصیل سے بات ہوئی۔

جب جانے والوں کا ذکر ہو تو دامن دل ان کے ساتھ بیتے  قیمتی لمحات کی یادوں کی طرف کھنچا جاتا ہے۔ فوٹو فیس بک

اس ناول کے لکھنے کے خیال نے کیسے جنم لیا، اس باب میں انھوں نے بتایا: 
’میں نے افسانے لکھے تو انہیں لوگوں نے بہت پسند کیا، اور مجھ سے کہا گیا کہ اور بھی افسانے لکھے جائیں۔ میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ داغ کی شخصیت ایسی ہے کہ اس پر لکھا ج اسکتا ہے۔ داغ کے بارے میں پڑھا تو اس کی اماں جان کے حالات بھی پڑھے۔ میں نے کہا کہ یہ تو بہت حیران کن خاتون ہیں، جو صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ یہاں سے وزیر خانم کی شخصیت کو ناول کا موضوع بنانے کے خیال نے جنم لیا۔
’غالب افسانہ‘ کی کامیابی نے مجھ سے مزید افسانے لکھوائے۔ ان کی کامیابی نے ’کئی چاند تھے سر آسماں‘ تک پہنچایا۔
’وزیر خانم جس طرح کی عورت ہے اس کے لیے جب تک کوئی پس منظر نہ ہو اس کو صحیح طریقے سے بیان نہیں کر سکتے۔ جس طرح میر کے افسانے میں، میں نے چالیس صفحے کا پس منظر لکھا، تو میں نے سوچا کہ یہاں بھی تاریخی، تہذیبی، واقعاتی، تجرباتی اور سوانحی معاملات کا بیان ہو جس کا منتہاے کمال وزیر خانم ہو۔ وہ ایک باکمال خاتون تھی، جس طرح کی زندگی اس نے اس زمانے میں گزاری آج کی خواتین کے لیے بھی مشکل ہے۔ اس نے ایک مشکل زندگی بسر کی لیکن کبھی حالات سے شکست تسلیم نہیں کی۔‘
فکشن لکھنا اپنی جگہ اہم تر سہی لیکن فاروقی کووڈ کی وجہ سے صاحب فراش ہونے سے پہلے تک دیگر علمی کاموں میں منہمک رہے۔
’داستان امیر حمزہ‘ پر اپنی تنقیدی کتاب کی پانچویں جلد ان کے ہسپتال داخل ہونے سے کچھ ہی دن پہلے شائع ہوئی تھی۔ ’تضمین اللغات‘ پر کئی برسوں سے کام کر رہے تھے۔

شمس الرحمٰن فاروقی نے 30 برس کی عمر میں ’شب خون‘ کے نام سے ادبی جریدہ جاری کیا۔ فوٹو فیس بک

چند ماہ پہلے ایک افسانہ بھی مکمل کیا۔ تنقید لکھنے کا عمل بھی برابر جاری رہا۔ دو سال پہلے ان کی شاعری کا کلیات ’مجلس آفاق میں پروانہ ساں‘ سامنے آیا۔
شمس الرحمٰن فاروقی کے علمی و ادبی سفر کا قصہ طولانی ہے، محض تذکرے سے اس کا حق ادا نہیں ہوتا اور جب جانے والوں کا ذکر ہو تو دامن دل ان کے ساتھ بیتے  قیمتی لمحات کی یادوں کی طرف کھنچا جاتا ہے۔ 
شمس الرحمٰن فاروقی صاحب سے میری پہلی ملاقات اپریل 2010 میں لاہور میں ’ایکسپریس‘ کے لیے انٹرویو کے سلسلے میں ہوئی جو ایک مضبوط تعلق کی تمہید بنی۔ اگلے دن ان سے ایک بھرپور نشست ہوئی جس میں بڑی صراحت سے ادب سے جڑے موضوعات پر وہ بات کرتے رہے۔ اس کے بعد وہ جتنے دن لاہور میں رہے میں ان کے تعاقب میں رہا۔ یہاں  تک کہ ان کی ہندوستان روانگی کے دن بھی صبح سویرے کچھ سوالوں کا جواب حاصل کرنے ہوٹل پہنچ گیا۔ ان کے ہندوستان لوٹ  جانے کے بعد فون اور ای میل کے ذریعے ان سے رابطہ قائم رہا۔
ہمارے درمیان کتابوں کا تبادلہ ہونے لگا۔ مجھے کسی کتاب کی ضرورت پڑتی تو میرے تقاضے پر وہ بھیج دیتے۔ ان کو پاکستان سے کوئی کتاب چاہیے ہوتی تو میں اس کا بندوبست کردیتا۔ ان کی نئی شائع ہونے والی کتابیں دستخطوں کے ساتھ میرے پاس آنے لگیں۔ میں اپنے مضامین انہیں بھیجنے لگا جسے وہ ’خبرنامہ شب خون‘ میں شائع کر دیتے۔
عربی زبان و ادب کے ممتاز سکالر اور اردو ادیب محمد کاظم پر میرا مضمون ان کو خاص طور پر بہت پسند آیا۔

 شمس الرحمٰن کے ناول ’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘ کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہوا

2015 میں وہ فیض فیسٹیول میں شرکت کے واسطے لاہور آئے تو اس بار پہلے سے کہیں زیادہ وقت ان کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا۔ میں سائے کی طرح ان کے ساتھ رہا۔اس دورے میں ان کی لائق فائق اور سکالر بیٹی مہر افشاں فاروقی بھی ان کے ساتھ تھیں۔ وہ جس تقریب میں جاتے میں بھی وہاں پہنچ جاتا۔ ادیبوں سے ان کی ملاقاتوں میں بھی شریک رہا۔ محمد سلیم الرحمٰن سے ملنے ان کے گھر گئے تو کہا کہ بھلا یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ لاہور آنا ہو اور شہر کے  ادبی قطب سے ملے بغیر لوٹ جاؤں۔
اس زمانے میں یہ بحث ہورہی تھی کہ ظفر اقبال کو فاروقی صاحب نے غالب سے بڑا شاعر کہا ہے یا نہیں۔ ظفر صاحب مصر تھے کہ یہ بات کہی گئی ہے لیکن فاروقی صاحب اس سے انکاری تھے۔ ظفر اقبال سے ملاقات کرنے ان کے یہاں گئے تو انھوں نے مہمان عزیز سے کہا کہ پنجابی میں کہتے ہیں کہ ’موئے دا تے مکرے دا کوئی علاج نہیں‘ (مراد مرے ہوئے اور اپنی بات سے پھر جانے والا کا کوئی علاج نہیں)، فاروقی صاحب نے جواب دیا: ’میاں، مرا تو میں نہیں ہوں، اسی لیے تو اپنے پائوں پر چل کر تمھارے پاس آیا ہوں۔‘ اور مکرنے کی بات بھی ٹھیک نہیں خیر یہ دوستانہ چہل تھی جس کے بعد بات دوسرے ادبی موضوعات کی طرف مڑ گئی۔
ایک ملاقات ان سے ایسی بھی ہوئی جس میں بالی وڈ کے معروف اداکار نصیرالدین شاہ بھی موجود تھے۔ وہ فاروقی صاحب سے جس عزت و احترام سے ملے، اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ ان کے مقام و مرتبے سے اچھی طرح واقف ہیں۔
دوران گفتگو نصیرالدین شاہ نے کہا کہ وہ یہ جاننے کے مشتاق ہیں کہ غالب کے روپ میں وہ انہیں کیسے لگے؟ فاروقی صاحب نے نصیرالدین شاہ  کی اداکاری کو تو سراہا  لیکن یہ بھی کہا کہ گلزار ڈائریکٹر اور رائٹر کی حیثیت سے اپنے کام سے انصاف نہیں کر سکے۔

دو سال پہلے فاروقی صاحب کی شاعری کا کلیات ’مجلس آفاق میں پروانہ ساں‘ سامنے آیا۔ فوٹو فیس بک 

اس موقعے پر فاروقی صاحب نے بتایا کہ اداکار عرفان خان نے ’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘ ہندی ترجمے میں پڑھا تو انہیں ناول بہت بھایا اور وہ اس پر فلم بنانے کی اجازت لینے ان کے پاس آئے۔
فاروقی صاحب کو اپنی تخلیق کو بڑی سکرین پر پیش کرنے پر اعتراض نہ تھا اس لیے عرفان خان کو کہا کہ ان کی طرف سے اجازت ہی اجازت ہے۔
دسمبر 2017 میں میری کتاب ’شرف ہم کلامی: انتظار حسین سے باتیں اور ملاقاتیں‘۔ شائع ہوئی تو اس کے بارے میں فاروقی صاحب کے تحسینی کلمات  نے میرا بڑا مان بڑھایا۔ میری کتاب ’لاہور :شہر پرکمال‘  کا ان کے قلم سے جو دیباچہ ہے اس پر مجھے تاعمر  ناز رہے گا۔
2015 میں فاروقی صاحب سے جو طویل انٹرویو کیا اس میں انھوں نے منیر نیازی کی شاعری کی بڑی  تعریف کی۔ ان کا کہنا تھا: ’منیر نیازی کا پرانا عاشق ہوں۔ بچوں کو اس کا عاشق بنایا۔ کلام یاد کرایا۔ بچپن میں وہ منیرنیازی کی شاعری پڑھتے رہتے۔
میری اینجیوپلاسٹی ہوئی تھی۔ اس کی ڈرافٹ خراب ہوگئی تو ڈاکٹر نے کہا کہ اس کوکھولنا پڑے گا، اسے کھولنے کی کوشش میں فریکچر ہو گیا۔ بہت درد ہورہا تھا۔ میں رویا نہیں۔ چلاّیا نہیں۔ بٹیا میری پردے کے پیچھے تھی۔ مرتے مرتے مجھے کوئی اور شاعر یاد نہیں آیا منیرنیازی یاد آیا۔ میں نے شعرپڑھا۔
اور ہیں کتنی منزلیں باقی
جان کتنی ہے جسم میں باقی‘

شمس الرحمٰن فاروقی کو فکشن نگار کے طور پر بھی پذیرائی ملی۔ فوٹو فیس بک

اس دفعہ بیماری کے دنوں میں جب وہ موت سے لڑ رہے تھے کس شاعر کے کلام ان کی زبان پر آیا اس کی ہمیں خبر نہیں البتہ مہر افشاں فاروقی کے ایک ٹویٹ سے یہ ضرور معلوم ہوا کہ اپنے  آخری ایام  میں ان کی سماعتوں سے ان کی پسند کے جو گانے ٹکرائے ان میں یہ گانا شامل تھا:
نہ ملتا غم تو بربادی کے افسانے کہاں جاتے
اگر دنیا چمن ہوتی تو ویرانے کہاں جاتے
ان کی علالت کے دوران میرا دھیان ان کی اس پہلی ادبی کاوش کی طرف بھی گیا جو اس مصرعے کی صورت میں سامنے آئی تھی:
معلوم کیا کسی کو مرا حال زار ہے 
فاروقی صاحب نے جب سے مصرع کہا ان کی عمر سات برس تھی۔
ان کے بقول ’میرے ’دکھی بچپن‘ کی داستان کا دریا میرے حسابوں اس کوزے میں بند ہو گیا تھا۔‘
ممکن ہے ڈاکٹر اور اعزہ انہیں مبتلائے درد دیکھ کر ان کی تشفی کے لیے جب یہ کہتے ہوں کہ درد تھم جائے گا تو ان کے اندر سے آواز اٹھتی ہو:
معلوم کیا کسی کو مرا حال زار ہے
فاروقی صاحب نے اردو تنقید اور تخلیق کو بہت ثروت مند کیا۔ وہ ادب میں جس جانب آئے اپنا پختہ نقش چھوڑ گئے۔ ان کے رخصت ہونے پر ملال تو ہے لیکن ساتھ ہی ان کے علمی سرمائے پر نظر جاتی  ہے تو ناسخ کا یہ شعر دل میں جگمگاتا ہے
باغ سے اگتے ہیں واں سے گل رعنا اب تک
جس جگہ سایہ پڑا تھا تری رعنائی کا

شیئر: