Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاسی بحران اور پی ٹی آئی  

لواحقین کے پرزور اسرار پر وزیراعظم ان سے ملنے کوئٹہ گئے تھے (فوٹو: ٹوئٹر پی ٹی آئی)
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ چھ دن انتہائی نامساعد حالات میں کھلے آسمان تلے رکھے ہزارہ مزدوروں کےلاشوں کو لواحقین نے دفنا دیا۔ بدلے میں ایک تحریری معاہدہ ملا جس پر عملداری کے لیے اب ریاست سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔  
دنیا بھر میں حکومتوں اور بحرانوں کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ پاکستان میں تو ہر منتخب حکومت کی حالت کچھ ایسی ہوتی ہے کہ منیر نیازی کا شعر مستعار لے کر اس میں ترمیم کرنے کی گستاخی کر نے جا رہی ہوں کہ  
’یک اور بحران کا سامنا تھا منیر مجھ کو  
میں ایک بحران کے پار اترا تو میں نے دیکھا‘
مچھ کا سانحہ بذات خود کم نہیں تھا کہ اس کے بعد حکومت نے اپنے لیے ایک سیاسی بحران بھی پیدا کر لیا۔ یہ بحران اپنے اندر کئی سوال چھوڑ گیا۔ کیا پی ٹی آئی میں واقعی سیاسی بالغ نظری کا فقدان ہے یا پھر اس بحران کو ایک exception کے طور پر لیا جائے۔
گزشتہ اڑھائی سال کو سامنے رکھیں توحکومت کے زیادہ مسائل اپنے پیدا کردہ ہیں۔ اپوزیشن پہلے تو اکٹھی تھی ہی نہیں اور اب اگر ہے بھی تو اس کا سیاسی پریشر نارمل سے بھی کم ہے۔ پھر ایسا کیا ہے کہ حکومت پے در پے سیاسی غلطیاں کرتی چلی جاتی ہے؟
 سیاست زبانی کام ہے اور گورننس عملی۔ اقتدار کے لیے دونوں کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔
کوئی بھی جمہوری حکمران ایک سیاستدان تو ہوتا ہی ہے، عوام کی نبض پہ اس کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس کے پاس کچھ اور دینے کے لیے ہو نا ہو باتیں، وعدے اور دلاسے ضرور ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے وزیراعظم تو دلاسوں سے بھی گئے۔ 
اب کچھ بھی ہو وضاحتوں کے باوجود ہزارہ لواحقین کے لیے بلیک میلنگ کا لفظ ان کےساتھ جڑا رہے گا۔
المیہ تو یہ ہے کہ ایم ڈبلیو ایم جس کی طرف سے پورے ملک اور کوئٹہ میں دھرنے دیے گئے وہ گلگت بلتستان میں حکومت کی اتحادی ہے۔ اپنے اتحادی کے ساتھ بھی سیاسی مینجمنٹ کرنے میں تحریک انصاف کو ناکوں چنے چبانے پڑے۔ مگر ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا اور نا آخری دفعہ آخر اس کی وجہ کیا سمجھی جائے؟   

مریم نواز اور بلاول بھٹو بھی لواحقین سے تعزیت کرنے کوئٹہ گئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

اس کا جواب ہے، سیاسی سوچ۔
سیایسی سوچ کا مطلب ہے کہ سیاسی معاملات کو صلح جوئی اور خوش اسلوبی سے حل کر لیا جائے۔
اس کے لیے کئی رسمی اور غیر رسمی فورم بھی موجود ہیں۔ پارلیمنٹ، کابینہ اور مختلف کمیٹیاں رسمی جبکہ ڈرائنگ رومز اور بیک چینل غیر رسمی فورم ہیں۔
حکومت میں آنے کے بعد جب بھی سیاسی بحران پیدا ہوا، پی ٹی آئی نے خود ذمہ داری لینے کے بجائے وزن کو پس پردہ منتقل کیا۔ چاہے فیٹف کے بل ہوں یا ایکسٹنشن، کراچی میں آئی جی کا مسئلہ ہو یا پنجاب میں نواز شریف کی بیرون ملک روانگی، پی ٹی آئی عین موقعوں پر غیر حاضر ہونے کو حکمتِ عملی سمجھتی ہے۔
اس غیر حاضری کا نتیجہ سیایسی ایشوز کا فیصلہ سازوں کی طرف منتقلی کی صورت میں نکل رہا ہے۔ اتحادیوں کے ایشوز بھی کئی کئی مہینے لٹکے رہتے ہیں حتیٰ کہ اتحادی کیا اپنے پارلیمانی اراکین کو بھی کم کم ہی انگیج کیا جاتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ سیاسی اتحاد کو قائم رکھنے میں پی ٹی آئی کا اپنا کردار کم ہی ہے۔  
ہمارے ہاں ہائبرڈ یا سیم پیج ماڈل کا بہت تذکرہ رہتا ہے۔ گورننس اور سیکیورٹی کے حوالے سے اس کا اثر بھی ہے۔
کورونا میں این سی او سی کا کام قابل ذکر ہے مگر سیاست تو سیاسی قوتوں کو ہی کرنا ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی اور وزیراعظم سیاسی امور بھی delegate کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اس کا نتیجہ دوطرفہ خطرناک ہے۔

احتجاج کے چھ روز بعد مقتولین کو دفنا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

ایک تو اس سے ان کی سیاسی جگہ یعنی پولیٹیکل سپیس سکڑتی جائے گی، دوسرے گورننس کے ساتھ ساتھ سیاست بھی ہائبرڈ ہوتی چلی جائے گی۔ ایسا کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔  
اب حکومت سمجھتی ہے کہ سینیٹ انتخابات کے بعد اس کے سیاسی مسائل ختم ہو جائیں گے۔
قانون سازی آسان اور پارلیمان تابع ہو گی۔ مگر سیاسی سوچ کے بغیر پارلیمان چلانا خام خیالی ہے۔ اگرسیاسی سوچ اور سیاسی مینیجمنٹ نہیں ہو گی تو پارٹی کے اندر سے ہی آوازیں نکلنا شروع ہو جاتی ہیں۔
ابھی بھی اپوزیشن کی اول صفوں سے زیادہ حکومت کی اول صفوں میں تبدیلیاں آئی ہیں اور مزید تبدیلیوں کی بھی خبریں گردش میں رہتی ہیں۔ نظام اور پارلیمنٹ سیاسی فکر اور سیاسی حکمتِ عملی سے ہی چلیں گے۔
مگر اس کے لیے تین کام ضروری ہیں۔ اپنے آپ کو خود تعریفی کے ببل سےباہر نکالنا، عوامی رائے کو اہمیت دینا اور کسی بھی مختلف سوچ رکھنے والے گروہ سے بات چیت کے لیے تیار رہنا۔
کیا پی ٹی آئی ایسا کرنے کے لیے تیار ہو گی؟ اسی پر پی ٹی آئی کے اپنے سیاسی مستقبل کا دار و مدار ہے۔ 

شیئر: