Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان اور انڈیا کے ایوان بالا کے انتخابات میں فرق کیا ہے؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان اور سندھ حکومت کی جانب سے حکومتی تجاویز کی مخالفت کی گئی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان میں سینیٹ کے ممبران کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کے طریقہ کار میں تبدیلی کا معاملہ صدارتی ریفرنس کی صورت میں سپریم کورٹ کے سامنے ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان اور سندھ حکومت کی جانب سے حکومتی تجاویز کی مخالفت کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے متعلقہ شقوں میں آئینی ترامیم کے اشارے مل رہے ہیں۔
جبکہ سیاسی تصادم پر آمادہ اور قانون سازی میں تعاون سے گریزاں اپوزیشن کی موجودگی میں مجوزہ آئینی ترامیم کے لیے دوتہائی اکثریت کا حصول مشکل نظر آ رہا ہے۔

 

آئینی تقاضے کے تحت سینیٹرز کے لیے انتخاب خفیہ رائے دہی کے ذریعے ہوتا ہے۔ گزشتہ ادوار میں بالخصوص 2003 کے بعد سے سینیٹ انتخابات میں ووٹ کی خرید و فروخت اور پارٹی ہدایات اور نامزدگی کے برعکس کسی دوسرے امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنے کے الزامات اور شواہد منظرعام پر آتے رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان تواتر سے سینیٹ کے انتخابات کے موجودہ طریقہ کار کی موجودگی میں پیسوں کے ذریعے ووٹ خریدنے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔
حکومت نے مارچ میں متوقع انتخابات میں اوپن ووٹنگ کا طریقہ کار اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 226 وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے انتخاب کے علاوہ تمام انتخابات کو خفیہ رائے دہی سے کرانے کا پابند بناتا ہے۔
اسی طرح آئین کا آرٹیکل 59(2) سینیٹ کے ممبران کے انتخاب کے لیے متناسب نمائندگی کا طریقہ کار واضح کرتا ہے۔
پاکستان میں سینیٹ کے ادارے کے قیام کی غرض بیان کرتے ہوئے آئینی کمیٹی کے چیئرمین مرحوم عبدالحفیظ پیرزادہ نے 31 دسمبر 1972 کو قومی اسمبلی کو بتایا تھا کہ ’سینیٹ میں سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ان کی صوبائی اسمبلی میں نمائندگی کے تناسب سے ہونی چاہیے۔‘
ملک میں انتخابی قواعد اور طریقہ کار پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے ’فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک‘ (فافن) نے سینیٹ انتخابات کے طریقہ کار میں مجوزہ تبدیلیوں کے حوالے سے جاری بحث کا ایک حل تجویز کیا ہے۔

پی ٹی آئی کی حکومت اپنے نئے مجوزہ طریقہ کار کے حق میں جن ممالک کی مثالیں پیش کرتی ہے ان میں انڈیا بھی شامل ہے (فوٹو: سینیٹ آف پاکستان)

فافن کے مطابق سینیٹ میں سیاسی جماعتوں کو ملنے والی نشستوں کی تعداد کو یا تو صوبائی و قومی اسمبلی میں ملنے والے براہ راست ووٹوں یا حاصل شدہ نشستوں کے تناسب سے طے کیا جانا چاہیے۔
یہ معاملہ اب سپریم کورٹ کی آئینی تشریح اور اجازت سے مشروط ہو کر رہ گیا ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت اپنے نئے مجوزہ طریقہ کار کے حق میں جن ممالک کی مثالیں پیش کرتی ہے ان میں انڈیا بھی شامل ہے، جہاں سپریم کورٹ نے اس قضیے کا فیصلہ کیا تھا۔
انڈیا میں سینیٹ کو راجیہ سبھا کہا جاتا ہے، جو وفاق میں ریاستوں اور یونین ٹیریٹریز کی نمائندگی کرتا ہے۔
2003 میں انڈین پارلیمنٹ نے راجیہ سبھا کے ممبران کے انتخاب کے لیے سیکرٹ بیلٹ کے بجائے اوپن بیلٹ کا قانون منظور کیا۔
ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کانگریس اور بی جے پی نے اس بل کی حمایت کی۔ پاکستان کے برعکس انڈیا میں اس پر کوئی آئینی قدغن نہ تھی۔ معترضین کا سوال پارلیمنٹ کے اختیار کا تھا کہ آیا وہ اس کی مجاز ہے کہ نہیں۔
پاکستان میں سینیٹ کے تمام ممبران براہ راست صوبائی اور قومی اسمبلیوں سے منتخب ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس انڈیا میں 245 کے ایوان میں 12 ممبرز کی نامزدگی کا اختیار صدر کے پاس ہوتا ہے۔
انڈین آئین کے مطابق تعلیم ،سائنس و ٹیکنالوجی، فنون اور سماجی علوم کے ماہرین کو راجیہ سبھا کے ممبر کے طور پر نامزد کیا جا سکتا ہے۔ تاہم نامزد ممبران کو صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں ہے۔

پاکستان میں سینیٹ کے اراکین کے انتخاب کے طریقہ کار میں تبدیلی کے لیے 2016 میں سینیٹ کی خصوصی کمیٹی قائم کی گئی تھی (فوٹو: اے پی پی)

انڈیا کے معروف مفکر اور عالمی شہرت کے حامل صحافی کلدیپ نائر 1997 سے 2003 تک راجیا سبھا کے نامزد رکن رہے ہیں۔ انہوں نے مجوزہ بل کی کھل کر مخالفت کی۔
اپنی آپ بیتی Beyond The Lines میں انہوں نے اپنی مخالفت کی وجوہات اور نئی قانون سازی کے مضمرات پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔
وہ لکھتے ہیں ’بل کا مقصد رائے دہی میں خفیہ طرز عمل کو ختم کرنا تھا۔ ریاست کی مقننہ کوئی نیلام گھر نہیں جہاں اٹھے ہوئے ہاتھوں سے معلوم ہو کہ کس نے کتنے ووٹ لیے ہیں۔ فیصلہ کن کردار روپے پیسے کے ہاتھ میں آ گیا کیوں کہ خریدار بچشم خود دیکھ سکتا تھا کہ اسے کتنے ووٹ مل رہے ہیں۔‘
دلچسپ امر یہ ہے کہ انہوں نے اوپن بیلٹ کے طریقہ کار کو اختیار کرنے کے نتیجے میں در آنے والی جن خرابیوں کا خدشہ ظاہر کیا ہمارے ہاں ان سیاسی قباحتوں کی وجہ انتخاب میں خفیہ رائے دہی کو قرار دیا جاتا ہے۔
کلدیپ نائر نے انڈیا کے اس وقت کے چیف جسٹس کے نام خط میں بل کے سیاسی و اخلاقی مضمرات کی روشنی میں مفاد عامہ کے تحت اس کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔
عدالت نے ان کے خط کو مقدمہ کی درخواست میں بدلتے ہوئے سماعت کا آغاز کیا۔ کلدیپ نائر نے صحافت کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی سے قیام پاکستان سے قبل قانون کی تعلیم بھی حاصل کر رکھی تھی۔
انہوں نے عدالت کے سامنے اپنے مقدمے کے حق میں خود دلائل دیے۔ جس پرعدالت نے نئے طریقہ کار کے تحت منعقدہ انتخابات پر حکم امتناعی جاری کر دیا۔
تاہم انڈین حکومت نے ڈویژن بینچ کے آگے اپیل کر کے حکم امتناعی ختم کروا لیا اور اسی دوران انتخابات بھی منعقد ہو گئے۔
کلدیپ نائر کے مطابق حکومت نے اس وقت کے انڈین سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس سنتوش ہیج، جو اپنی دیانت داری اور آزادانہ رائے کے لیے مشہور تھے، کی ریٹائرمنٹ کا جان بوجھ کر انتظار کیا۔
نئے چیف جسٹس جسٹس سبروال نے پانچ ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دیا، جس نے دو ہفتوں کی سماعت کے بعد متفقہ طور پر پارلیمنٹ کی ترامیم کو برقرار رکھا۔
کلدیپ نائر نے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’عدالت راجیا سبھا کے کردار کو سمجھنے سے قاصر رہی۔ اب یہ ریاستوں کی انجمن نہ تھی بلکہ یہ بے پیندا لوٹوں کی آماجگاہ بن چکی تھی۔‘

کلدیپ نائر نے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت راجیا سبھا کے کردار کو سمجھنے سے قاصر رہی۔ (فوٹو: ٹائمز آف انڈیا)

پاکستان میں اوپن بیلٹ کے طریقہ انتخاب پر اعتراض کی ایک وجہ اس کا تکنیکی طور پر عام ووٹ سے مختلف ہونا ہے۔
انڈیا اور پاکستان دونوں میں متناسب نمائندگی یعنی Single Transferable Vote کا طریقہ رائج ہے ۔ جس میں ایک امیدوار کو مطلوبہ ووٹ پورے ہونے کے بعد زائد ووٹ ترجیحی فہرست میں اگلے امیدوار کو منتقل ہو جاتے ہیں۔
ہندوستان نے نئے طریقہ کار یعنی اوپن بیلٹ میں اس کو برقرار رکھا ہے۔ وہاں ووٹر مارک شدہ بیلٹ پیپر کو باکس میں ڈالنے سے قبل اپنی پارٹی کے بااختیار نمائندے کو دکھانے کا پابند ہے۔
اسی طرح پارٹی کے مخصوص نمائندے کے علاوہ کسی اور کو بیلٹ پیپر دکھانے کی صورت میں اس کا ووٹ غیرمستند شمار ہوتا ہے۔
اوپن بیلٹ کے طریقہ کار میں پارٹی نمائندے کو بیلٹ نہ دکھانے کی صورت میں مذکورہ ووٹ کو گنتی میں شمار ہی نہیں کیا جاتا۔
جبکہ آزاد ممبران اسمبلی کے لیے کسی شخص کو بھی ووٹ دکھانا منع ہے۔
پاکستان میں سینیٹ کے اراکین کے انتخاب کے طریقہ کار میں تبدیلی کے لیے 2016 میں سینیٹ کی خصوصی کمیٹی قائم کی گئی تھی۔
اس کمیٹی نے سینیٹ کے اراکین کے انتخابات میں شفافیت لانے کے لیے تجویز دی تھی کہ بیلٹ پیپر پر ووٹر کا نام چھاپ دیا جائے۔ نتائج کے اعلان کے بعد تمام جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کو پول شدہ ووٹ دیکھنے کی اجازت دی جائے۔
کمیٹی نے پارٹی پالیسی کے برعکس ووٹ ڈال کر پارلیمانی فریضے سے پہلو تہی کرنے والے ممبران کے خلاف کاروائی کے لیے آئین کے آرٹیکل (b)(1)63 میں بھی تبدیلی کی سفارش کی تھی۔
فافن کے خیال میں سینیٹ کمیٹی کی یہ تجویز اوپن بیلٹ کا بہتر متبادل ثابت ہو سکتی ہے۔
سینیٹ آف پاکستان کے انتخاب میں صوبائی کوٹہ پر امیدوار کا تعین صوبے میں ووٹ کے اندراج سے ہوتا ہے۔

پاکستان میں حکومت سپریم کورٹ سے رہنمائی اور قانونی تشریح کے بعد ہی قانون سازی کی طرف جا سکتی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

انڈیا نے 2003 کی قانون سازی میں اس طریقہ کار کو اختیار کیا۔ اس سے قبل وہاں ریاست کے باشندے کا تعین ڈومیسائل کی بنیاد پر ہوتا تھا۔ اس قانون میں ترمیم کو بھی لوک سبھا کے سابق ممبر اندرجیت نے اوپن بیلٹ کے قانون کے ساتھ ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس کیس میں بھی حکومتی ترمیم کو برقرار رکھا ۔
ہمارے ہاں سیاسی اور صحافتی حلقوں میں رائے دہندگان کو بیلٹ پیپر پر موجود تمام امیدواروں کو مسترد کرنے کا حق دینے کی بات بھی کی جاتی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ انڈیا اس تجربے سے بھی گزر چکا ہے۔ ایکشن کمیشن آف انڈیا نے 2014 اور 2015 میں دو سرکلرز کے ذریعے راجیہ سبھا کے انتخاب میں ریاستوں کے ممبران اسمبلی کو None Of The Above  کا اختیار استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔
لیکن 2018 میں انڈین سپریم کورٹ نے کانگریس کے ایک رکن کی درخواست پر اس طریقہ کار کو کالعدم قرار دیا۔
اس کے لیے دلیل دی گئی کہ عام انتخابات میں براہ راست ووٹنگ کے لیے ایسا ہو سکتا ہے مگر متناسب نمائندگی کے تحت منعقد الیکشن میں یہ طریقہ غیر قانونی ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے یکساں ماضی اور کسی حد تک سیاسی اور سماجی مشترکات کی وجہ سے سیاسی اور قانونی کلچر میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ انڈیا میں ایوان بالا کےانتخابات کے لیے ملک کی اعلی عدالت نے قانونی اصول وضع کیے تھے۔ اٹھارہ برسوں بعد پاکستان کی سپریم کورٹ میں بھی اسی طرح کا مقدمہ زیر سماعت ہے۔
فرق صرف یہ ہے کہ انڈیا میں پارلیمنٹ نے قانون سازی کی تو سپریم کورٹ نے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کی۔
پاکستان میں حکومت سپریم کورٹ سے رہنمائی اور قانونی تشریح کے بعد ہی قانون سازی کی طرف جا سکتی ہے۔ دوسری صورت میں اسے آئینی ترمیم کے لیے اپوزیشن کو منانا ہوگا۔

شیئر: