Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سینیٹ انتخابات: حکومت اور اپوزیشن کے کتنے سینیٹرز منتخب ہوں گے؟

الیکشن کمیشن حکام کے مطابق اس بار فاٹا کی نشستوں پر انتخابات نہیں ہوں گے (فوٹو: فیس بک )
سینیٹ انتخابات 2021 کے بعد پاکستان تحریک انصاف کا 28 نشستوں کے ساتھ ایوان بالا کی سب سے بڑی جماعت بننے کا امکان ہے جبکہ 100 رکنی ایوان میں حکومت اور اپوزیشن ارکان کی تعداد تقریباً برابر رہنے کی بھی توقع ہے۔
پیپلز پارٹی 19 نشستوں کے ساتھ دوسری، مسلم لیگ ن 18 نشستوں کے ساتھ تیسری اور بلوچستان عوامی پارٹی کا 12 نشستوں کے ساتھ چوتھی بڑی جماعت بننے کا امکان ہے۔

 

الیکشن کمیشن حکام کے مطابق اس بار سینیٹ کی 48 نشستوں پر انتخابات ہوں گے۔ فاٹا کی نشستوں پر انتخابات نہیں ہوں گے جس کے باعث سینیٹ کی نشستیں 104 سے کم ہو کر 100 رہ جائیں گی۔
اس وقت صوبائی اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن کو مدنظر رکھا جائے تو سینیٹ الیکشنز میں پاکستان تحریک انصاف کو 21 نئی نشستیں ملنے کا امکان ہے۔ پی ٹی آئی کی سینیٹ میں اس وقت 14 نشستیں ہیں جن میں سے 7 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے۔
تحریک انصاف کو اپنے ہوم گراؤنڈ یعنی خیبر پختونخوا اسمبلی سے 10، پنجاب سے 6 ، اسلام آباد سے 2، سندھ سے 2 اور بلوچستان سے ایک سینیٹر کی کامیابی کی توقع ہے۔ اس طرح 28 نشستوں کے ساتھ تحریک انصاف پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار سینیٹ کی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی۔ تحریک انصاف کو سینیٹ میں پہلی بار 2014 میں نمائندگی ملی تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹ میں نشستیں 21 سے کم ہو کر 19 رہ جائیں گی ۔ پیپلز پارٹی کے 7 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے۔ ان تمام ارکان کا تعلق سندھ سے ہے۔ پیپلز پارٹی کو سندھ سے 5 نئی نشستیں ملنے کا امکان ہے۔

تحریک انصاف 28 نشستوں کے ساتھ پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار سینیٹ کی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی (فوٹو: سینیٹ)

اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سب سے زیادہ 17 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے۔ مسلم لیگ ن کے سینیٹرز میں سے 11 پنجاب جبکہ بلوچستان، خیبرپختونخوا اور اسلام آباد سے دو دو ریٹائر ہوں گے۔ اس طرح مسلم لیگ ن کی سینیٹ میں نشستیں 30 سے کم ہو کر 18 رہ جائیں گی۔ مسلم لیگ ن کو سینیٹ میں صرف پنجاب سے 5 نئی نشستیں آنے کا امکان  ہے۔
ایوان بالا سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 2 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے، ایک کا تعلق بلوچستان اور ایک کا خیبرپختونخوا سے ہے۔ نئے انتخابات کے نتیجے میں جمعیت علمائے اسلام ف کے سینیٹرز کی تعداد 5 ہونے کا امکان ہے۔
ایم کیو ایم کی سینیٹ میں نشستیں 5 سے کم ہو کر 3 رہ جائیں گی۔ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے باعث فاٹا سے سینیٹ میں کوئی نئی نشست نہیں آئے گی۔ فاٹا سے سینیٹ میں ارکان کی تعداد 4 رہ جائے گی۔

سینیٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی نشستیں 21 سے کم ہو کر 19 رہ جائیں گی (فوٹو: سینیٹ)

امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کے ریٹائر ہونے کے بعد ایوان بالا میں جماعت اسلامی کا صرف ایک سینیٹر رہ جائے گا۔
سیاسی ماہرین کے مطابق پی ڈی ایم کی جماعتیں بلوچستان اور خیبر پختوانخوا میں اتحاد کر کے مزید ایک ایک اضافی نشست حاصل کر سکتی ہیں۔ اے این پی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حمایت سے خیبر پختونخوا اسمبلی میں ایک نشست اور بلوچستان اسمبلی میں ایم ایم اے، بی این پی مینگل، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور اے این پی اتحاد سے ایک نشست جیتی جا سکتی ہے۔
سینیٹ میں نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی دو دو نشستیں رہ جائیں گی۔
جی ڈی اے کی سندھ سے ایک نشست آنے کی صورت میں ارکان کی تعداد 2 ہو جائے گی۔ بی این پی مینگل کے پاس 2 نئی نشستیں آنے کا امکان ہے۔ انتخابات کے بعد سینیٹ میں نشستوں کی تعداد 104 سے کم ہو کر 100 رہ جائے گی۔
سینیٹ انتخابات 2021 کے بعد پاکستان تحریک انصاف، بلوچستان عوامی پارٹی، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور ق لیگ پر مشتمل حکومتی اتحاد کے ارکان کی تعداد 49 ہونے کا امکان ہے۔ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، جمیعت علمائے اسلام ف، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، بی این پی (مینگل) اور جماعت اسلامی پر مشتمل اپوزیشن ارکان کی تعداد 51 ہونے کا امکان ہے۔
پارلیمانی امور کے ماہر طاہر حنفی نے سینیٹ انتخابات اور اس کے بعد متوقع پارٹی پوزیشن کے حوالے سے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'سینیٹ انتخابات میں عموماً صوبائی اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن کے مطابق ہی نتائج سامنے آتے ہیں۔ ماضی قریب میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں میں کچھ ایسے واقعات ہوئے کہ ارکان نے پارٹی امیدواروں سے ہٹ کر ووٹ دیے۔ اس لیے توقع کی جا سکتی ہے اس بار بھی سینیٹ انتخابات کے نتیجے میں متوقع نتائج ہی سامنے آئیں گے، تاہم بلوچستان میں مولانا شیرانی کے بیانات کے بعد جمعیت علمائے اسلام ف کو کچھ دھچکہ لگ سکتا ہے۔'
انھوں نے کہا کہ 'سینیٹ کی نئی نمبر گیم کے مطابق حکومت اور اپوزیشن کی تعداد تقریباً برابر رہنے کا امکان ہے تو ایسی صورت میں اپوزیشن اپنا چیئرمین لانے کی کوشش بھی کرے گی تو اسے کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔'
طاہر حنفی کے مطابق 'نمبر گیم برابر ہونے سے دباؤ حکومت پر ہوگا جو جمہوری رویوں کو فروغ دینے کا باعث بنے گا۔ حکومت قومی ایجنڈے کے علاوہ کوئی قانون سازی کرنا چاہے گی تو ان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔'
انھوں نے کہا کہ 'سینیٹ انتخابات کے بعد حکومت اگر جارحانہ پالیسی ترک کر دے اور سخت زبان کا استعمال نہ کرے تو سینیٹ سے اسے تعاون مل سکتا ہے، بصورت دیگر نمبر گیم کا مارجن کم ہونے سے 'انجینئرز' کے لیے حکومت کو مشکل میں ڈالنا آسان ہوگا۔'

شیئر: