Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پتن منارہ ’پانچ ہزار سال پرانی ثقافت‘ کا نشان ہے

پتن دریا کے کنارے خشک جگہ کو کہتے ہیں اور منارہ مینار کو کہتے ہیں۔ پتن منارہ کا مطلب ہے خشکی پر مینار۔
پتن منارہ رحیم یار خان کے آثار قدیمہ میں سے سب سے زیادہ قدیم بتایا جاتا ہے۔
رحیم یار خان میں قائم پتن منارہ فاؤنڈیشن کے بانی حیدر چغتائی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پتن منارا ہاکڑا دریا کی تہذیب کا حصہ ہے اور اس کی ثقافت پانچ ہزار سال پرانی ہے۔‘
برطانوی دور میں کرنل منچن نے 1870 میں اس کی کھدائی کروائی تو یہاں سے قدیم انداز سے بنائی ہوئی شیروں کی تصاویر ملی تھیں۔
پتن منارہ کے چار دروازے تھے جو اب کھنڈرات کی شکل میں موجود ہیں۔ انہیں بندور، کھوکھار، بھنڈار اور پتن منارہ کہا جاتا ہے۔
راجھستان سے تعلق رکھنے والے انڈین تاریخ دان پریم چن گاندھی کا کہنا ہے کہ ’تاریخ کے نشانات راجھستان اور پاکستان میں پتن منارہ پر ملتے ہیں۔‘
اردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’راجھستان میں پڑویل، بدرکالی، رنگ محل، کالی بنگا، پیلی بنگا اور پتن منارہ کی تاریخ پانچ ہزار سال پرانی ہے۔‘

پتن منارہ رحیم یار خان کے آثار قدیمہ میں سے سب سے زیادہ قدیم بتایا جاتا ہے (فوٹو: رحیم یار خان ڈاٹ نیٹ)

پریم چن گاندھی کے مطابق’راجھستان میں سرسوتی، جس کو پاکستان میں ہاکڑا ندی کہتے ہیں ایک بہت بڑی ندی تھی۔ اس ندی کے کنارے مٹی میں شہروں، قصبوں اور گاؤں کے نشانات دبے ہوئے ملتے ہیں۔ ان نشانات کو ہماری زبان میں تہڑ کہا جاتا ہے یعنی مٹی کے ڈھیر۔ ان مٹی کے ڈھیروں میں ایک تاریخ دفن ہے اور اس تاریخ کی پوری دنیا میں اہمیت ہے۔‘
انڈین تاریخ دان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے مزید بتایا کہ ’پتن منارہ، کالی بنگا اور پیلی بنگا کے راستے پر ہے اور جو برتنوں کے حصے ہمیں کالی بنگا سے ملے ان کے باقی حصے دوسرے ممالک سے ملے ہیں۔ سرسوتی یعنی ہاکڑا ندی اتنی بڑی تھی کہ سمندر سے جا ملتی تھی اور پتن منارہ ایک بہت بڑی بندرگاہ تھی۔ اس ندی میں ہزاروں سال پہلے بھی بڑے بڑے جہاز چلتے تھے اور پوری دنیا سے تجارت کی جاتی تھی۔
 پھر ایک زلزلہ آیا اور ندی نے اپنا راستہ بدل لیا اور یہ شہر تباہ ہو گئے۔ اس طرح اس ندی کے کنارے آباد لوگ دوسری جگہوں ہر چلے گئے اور یہ ویران ہوتے چلے گئے۔‘

پتن منارہ ایک خوشحال شہراور ہندؤوں کی عظیم عبادت گاہ تھی (فوٹو: پنجاب حکومت)

پتن منارہ ایک خوشحال شہر اور ہندؤوں کی عظیم عبادت گاہ تھی، لوگ سندھ اور جیسلمیر سے راجہ شوراتری کا تہوار منانے اس پتن منارہ کے مقام پر آتے تھے۔
مورخین کے مطابق سکندر اعظم 325 قبل مسیح میں 500 برہمنوں کے ہمراہ اس پر حملہ آور ہوا اور اس قدیم سلطنت کے بادشاہ شاہ میوسی کینسس کو پھانسی پر لٹکا دیا۔

شیئر: