Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میانمار میں مظاہروں کے بعد اضافی فوج تعینات

میانمار میں یکم فروری کو فوج نے ملک کا اقتدار سنبھال لیا تھا (فوٹو اے ایف پی)
ميانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف جاری مظاہروں پر قابو پانے کے لیے ملک بھر میں اضافی فوج تعينات کر دی ہے۔ جبکہ حکام نے ایک مرتبہ پھر شہریوں کی انٹرنیٹ تک رسائی مکمل معطل کر دی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کی جانب سے مشترکہ بیان میں میانمار کے حکام پر زور دیا ہے کہ شہریوں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچایا جائے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ میانمار کی سکیورٹی فورسز مظاہرین کے خلاف تشدد سے گریز کریں، جو قانونی حکومت کی برطرفی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ یکم فروری کو میانمار کی فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور منتخب رہنما آنگ سان سوچی سمیت دوسرے سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا تھا۔ منتخب حکومت کو ہٹا کر فوج کے اقتدار سنبھالنے کے خلاف ملک بھر میں لاکھوں کی تعداد میں افراد سڑکوں پر نکل کر آئے تھے۔
اقوام متحدہ کے  سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی میانمار کے حکام پر زور دیا ہے کہ شہریوں کے پرامن اجتماع کے حق کو یقینی بنایا جائے اور مظاہرین کو انتقام کا نشانہ نہ بنایا جائے۔
سیکرٹری جنرل نے ميانمار کے فوجی حکام سے کہا ہے کہ سوئٹزرلینڈ کی سفارتکار کرسٹین برجنر کو میانمار کے دورے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ تمام زمینی حقائق کا اندازہ لگا سکیں۔
ميانمار میں امریکی سفارتخانے نے اپنے شہریوں کو گھروں میں رہنے اور کرفیو کی خلاف ورزی نہ کرنے کی ہدایت دی ہے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی مبصر ٹام اینڈریو نے اپنی ٹویٹ میں میانمار کی صورتحال پر کہا ہے کہ فوجی جرنیلوں نے اپنے ملک کے شہریوں کے خلاف ہی اعلان جنگ کر دیا ہے۔ 
انہوں نے مزید کہا کہ رات بھر چھاپوں، حراستوں میں اضافہ، دوبارہ انٹرنیت کی بندش، فوجی قافلوں کا کمیونٹی میں داخلہ، یہ سب مایوسی کی نشانیاں ہیں۔ انہوں نے فوجی بغاوت میں ملوث جرنیلوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’تمہیں جوابدہ ٹھہرایا جائے گا۔‘
اے ایف پی کے مطابق ميانمار کے دارالحکومت ینگون میں کئی مقامات پر اضافی فوج تعینات کی گئی ہے، جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی اضافی فوجی گاڑیوں کو گزرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
پیر کی صبح کو دارلحکوت ینگون میں ایک مرتبہ پھر فوج مخالف مظاہروں میں شدت نظر آئی ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں طلبہ نے شہر کے شمالی حصے میں پر زور احتجاج کیا جبکہ دیگر شہروں سے بھی احتجاج کی خبریں آئی ہیں۔
اتوار کی رات کو شمالی شہر مائٹکینا میں مظاہرین پر گولیاں برسانے اور آنسو گیس کے استعمال کے حوالے سے بھی میڈیا میں رپورٹ کہا گیا ہے۔

مظاہرین نظر بند رہنما آنگ سان سوشی کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

مقامی میڈیا کے مطابق مظاہروں کے حوالے سے خبریں دینے اور زخمیوں کی تصاویر چھاپنے والے کم از کم پانچ صحافیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
معلومات تک رسائی اور انٹرنیٹ کی بندش کے علاوہ اکثر صارفین کی سوشل میڈیا تک رسائی بھی معطل کر دی گئی ہے۔

شیئر: