Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف لاکھوں افراد کے احتجاجی مظاہرے

مظاہرین نے سرکاری ملازمین اور دیگر صنعتوں میں کام کرنے والے ملازمین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کام پر نہ جائیں اور مظاہروں میں شامل ہوں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
میانمار بھر میں لاکھوں افراد نے فوجی بغاوت کے خلاف سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انٹرنیٹ کی بندش بھی فوج کی جانب سے آنگ سان سوچی کو ہٹائے جانے کے خلاف لوگوں کے غم و غصے کو کم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
بعض اندازوں کے مطابق اتوار کو صرف ینگون میں مظاہرین کی تعداد ایک لاکھ تھی اور دوسرے شہروں میں بھی بڑے بڑے مظاہرے کیے گئے۔

 

ینگون میں سٹی ہال کی جانب مارچ کرتے ہوئے مظاہرین نے ’جسٹس فار میانمار‘ کے بینرز اٹھا کر شدید نعرے بازی کی۔ دوسرے لوگ سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے لال جھنڈے لہراتے رہیں۔
مظاہرے میں موجود یونیورسٹی کے ایک 20 سالہ طالب علم نے کہا کہ ’میں فوجی بغاوت کو مکمل رد کرتا ہوں اور میں کریک ڈاؤن سے خوفزدہ نہیں ہوں۔ جب تک ماں سوچی آزاد نہیں ہوتی میں روز مظاہرے میں آؤں گا۔‘
تاہم ینگون میں مظاہرین شام کو اس اعلان کے بعد منتشر ہو گئے کہ وہ کل پیر کو مقامی وقت کے مطابق صبح دس بجے دوبارہ جمع ہوں گے۔

دارالحکومت نیپیداو میں بھی فوجیوں کی بڑی تعداد کے باوجود بڑا مظاہرہ دیکھا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

مظاہرین نے سرکاری ملازمین اور دیگر صنعتوں میں کام کرنے والے ملازمین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کام پر نہ جائیں اور مظاہروں میں شامل ہوں۔
بہت سے مظاہرین ’ہنگر گیمز‘ فلموں سے متاثرہ تین انگلیوں والا سیلوٹ بھی کرتے رہیں۔ یہ سیلوٹ گذشتہ برس تھائی لینڈ میں جمہوریت کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں مزاحمت کا نشان بن گیا تھا۔
ایک اور 18 سالہ طالب علم نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم آخر تک لڑیں گے۔ اگر ہم نے اس فوجی ڈکٹیٹر شپ کو ختم کر دیا تو اگلی نسل کے پاس جمہوریت ہوگی۔‘
دارالحکومت نیپیداو میں بھی فوجیوں کی بڑی تعداد کے باوجود بڑا مظاہرہ دیکھا گیا۔
تمام ریلیاں مجموعی طور پر پرامن تھیں لیکن مقامی میڈیا کے مطابق جنوب مشرق شہر مایاوڈی میں پولیس نے مظاہرین کے ایک گروہ کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی۔
دوسری جانب عیسائیوں کے پیشوا پوپ فرانسس نے ’میانمار کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی‘ کا اظہار کیا ہے اور فوج سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ’جمہوری بقائے باہمی‘ کے لیے کام کرے۔

شیئر: